Meri Kahani Meri Zubani

میری کہانی میری زبانی محمد ارشد مہند ایڈووکیٹ کی بیٹھک کچھ لوگ پوری زندگی ایک ہی ڈگر پر گزار دیتے ہیں ۔ چاہے زمانہ کے کتنے نشیب و فراز بھی آئیں مگر ان کی چال ایک ہی رہتی ہے ۔ ان کچھ لوگوں میں میرا دوست ارشد مہند بھی شامل ہے اور وکالت ان کا پیشہ اور سیاست ان کا اوڑھنا بچھونا ہے ۔ ارشد مہند کے ساتھ میرا پیار اور باہمی احترام کا تعلق ہے ۔ ارشد مہند عمر میں مجھ سے چھوٹا ہے اور ان کے خاندان کے ساتھ ہمارے نسلوں کے تعلقات ہیں ۔ ارشد مہند کے بڑے بھائی محمد اقبال میرے پرائمری اسکول سے لے کر کالج تک ہم جماعت رہے ہیں ۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم پرائمری اسکول برانچ نمبر 3 اور ہائی اسکول نمبر 1 میں پڑھتے تھے تو میں اکثر اقبال کے گھر اسے بلانے کے لئے آیا کرتا تھا ۔اور اقبال کے گھر کے ساتھ ہی ہمارے دو اور جماعتیوں عارف اور امجد کے گھر تھے ۔اور پھر ہم سب دوست اکھٹے مل کر کرکٹ اور فٹبال کھیلنے جاتے تھے اور خاص کر اتوار کو میں نے ادھر ضرور آنا ہوتا تھا ۔ اس لحاظ سے میری ارشد مہند سے آشنائی برسوں سے ہے۔ میرا ارشد مہند کے ساتھ قریبی اور دوستانہ تعلق اسی کی دھائی میں استوار ہوا۔ جب میں سعودی عرب میں ہوتا تھا اور سعودی عرب سے میرے سال میں تین چار چکر حافظ آباد کے لگ جاتے تھے اور حافظ آباد میں میرے پرانے سب سے قریبی دوستوں میں شیخ جاوید رہ گیا تھا کیونکہ باقی سب بچپن کے قریبی دوستarshad mahind غم روزگار کے سلسلہ میں ٹوٹی تسبیح کے دانوں کی طرح بکھر چکے تھے ۔اور شیخ جاوید لوگ بھی اپنا ڈاکخانہ روڈ پر واقع مکان فروخت کر کے راجہ چوک کے ساتھ ایک ملحقہ گلی میں چلے گئے تھے ۔اور شیخ جاوید تو میرا جان جگر تھا اور حافظ آباد آکر سب سے پہلے اس کو ملنے راجہ چوک اس کے گھر جاتا تھا۔ اب چونکہ شیخ جاوید اور ارشد مہند ایک ہی محلہ میں رہتے تھے اور دونوں ہی کھلے ذہن کے مالک تھے ۔اس لئے آپس میں قریبی دوست بن گئے ۔ اور جب شام کو جاوید اپنی دوکان کالج شوز سے گھر آتا تو راجہ چوک میں ہم لوگ مل بیٹھتے اور اس طرح میرا ارشد مہند کے ساتھ تعلق گہرا ہوتا چلا گیا ۔ جو اب بھی اسی طرح قائم ودائم ہے ۔محمد ارشد مہند کی حافظ آباد میں سیاسی پہچان پاکستان پیپلز پارٹی کے حوالے سے ہے۔ ارشد مہند کو سابق وزیراعظم پاکستان ذوالفقار علی بھٹو کی شخصیت سے جنون کی حد تک پیار تھا ۔ اور 5 جولائی 1977ء کے مارشل لاء اور جنرل محمد ضیاء الحق کے خلاف وہ ایک آواز بن کر اٹھا تھا حالانکہ وہ بالکل نو عمر تھا ۔ ذوالفقار علی بھٹو کی بے رحمانہ انداز میں پھانسی کے خلاف حافظ آباد میں پر امن احتجاج کرتے ہوئے پولیس کا تشدد برداشت کرتے ہوئے گرفتار ہوا۔ لاہور کے ایک کرکٹ اسٹیڈیم میں جب پنجاب پولیس نے بیگم نصرت بھٹو کو بے رحمانہ تشدد کرتے ہوئے لہو لہان کر دیا تھا ۔تو اس وقت بھی حافظ آباد میں پاکستان پیپلز پارٹی کے کارکنوں نے جو احتجاج کیا تھا اس میں بھی ارشد مہند نمایاں تھا ۔ محمد ارشد مہند نے ایک ٹانگ سے معذوری کے باوجود بڑی چوکس زندگی گزاری ہے۔ اور اپنی اس معزوری کو اپنی زندگی کے کاموں میں حائل نہیں ہونے دیا ۔یاد رہے جب ارشد مہند دوسری یا تیسری کلاس میں پرائمری اسکول برانچ نمبر 3 میں زیر تعلیم تھے تو اس وقت اسکول کے ایک استاد کے جسمانی تشدد کا شکار ہوئے تھے ۔ایم بی ہائی اسکول نمبر ایک اور گورنمنٹ کالج حافظ آباد سے تعلیم حاصل کرنے کے بعد ایس ایم لا کالج کراچی سے ایل ایل بی کی ڈگری حاصل کی ۔ حافظ آباد میں گورنمنٹ کالج حافظ آباد کی کالج یونین کے صدر بھی رہے ۔ اس کے علاؤہ پی ایس ایف کے پلیٹ فارم سے طلباء کی سیاست میں بھی خوب حصہ لیا ۔ ارشد مہند ذہنی طور ایک لبرل سوچ کا مالک اور کسی سے بھی تعصب نہ رکھنے والا انسان ہے ۔ اور اس کے حلقہ احباب میں ہر طرح کے لوگ شامل ہیں ۔ ارشد مہند پاکستان پیپلز پارٹی ضلع حافظ آباد کا صدر اور جنرل سکریٹری بھی رہا ہے ۔ ارشد مہند ضلع حافظ آباد کے ان چند سیاسی کارکنوں میں شامل ہے ۔جنہوں نے کسی بھی وقت یا برے وقت میں اپنی پارٹی کو نہ چھوڑا ہے اور نہ ہی کبھی مخالف گئے ہیں ۔ 1993ء میں جب محترمہ بینظیر بھٹو کی قیادت میں پاکستان پیپلز پارٹی کی حکومت بنی۔تو محمد ارشد مہند ایڈووکیٹ کو اس وقت کی حکومت نے ضلع حافظ آباد کی زکوٰۃ و عشر کمیٹی کا چیئرمین مقرر کیا ۔یہ ایک عام سیاسی کارکن کے لئے بہت بڑا اعزاز تھا ۔ اور مزے کی بات یہ تھی کہ پاکستان پیپلز پارٹی کی اعلیٰ قیادت نے اس وقت کی پیپلز پارٹی حافظ آباد کی مقامی سیاسی قیادت کے نا چاہتے ہوئے بھی ان کو چئیر مین بنا دیا تھا ۔جو ان کی پارٹی کے لئے ان کی خدمات کا اعتراف تھا ۔ ارشد مہند نے ایم آر ڈی کی پاکستان میں بحالی جمہوریت کی تحریک جو کہ جنرل محمد ضیاء الحق کے مارشل لاء کے خلاف تھی میں بھی بھرپور انداز سے حصہ لیا ۔ اور پولیس کے تشدد کا نشانہ بنے اور بار بار جیل کی راہ دیکھی۔ اور خاص کر ان دنوں اس وقت کی حکومت کی طرف سے ایک جعلی قتل کیس ان پر بنایا گیا تھا اور ان کو پولیس تشدد کا نشانہ بنایا گیا تھا ۔ یاد رہے کہ ارشد مہند اپنی جسمانی کیفیت کی بناء پر پولیس کا ایک آسان ہدف ہوتے تھے ۔ ارشد مہند ایک علم دوست تعمیری پڑھنے والے اور کتاب دوست شخصیت ہیں ۔ان کی بیٹھک میں حافظ آباد کی بڑی علمی مزہبی سیاسی اور ادبی شخصیات کی آمد رہتی تھی ۔ جونہی رات کا آغاز ہوتا ۔ان کی بیٹھک میں محفل جمنا شروع ہو جاتی ۔ شیخ جاوید شام ،کامریڈ امجد علی قادری ، میں ، منور حسین بھٹی ایڈووکیٹ ، ارشد انصاری ، حکیم محمد بوٹا شہزاد ، مولانا سیف علی نجفی ،شیخ منور عباس گوئیندی ،حافظ شفیق الرحمن اور کئی دیگران یہاں موجود ہوتے تھے ۔ پروفیسر چوہدری صلاح الدین صاحب اور ماسٹر ممتاز کی بھی کبھی کبھی خصوصی آمد ہوتی تھی ۔ جوں جوں رات گہری ہوتی جاتی تھی ۔چاے کے ادوار چلتے جاتے تھے ۔ ہر موضوع پر سیر حاصل گفتگو ہوتی تھی ۔ سب احباب ایک دوسرے کی بات اور خیالات تحمل اور برداشت کے ساتھ سنتے تھے ۔ (حالانکہ ماسٹر ممتاز منور حسین بھٹی ایڈووکیٹ اور حکیم محمد بوٹا پیپلز پارٹی کے سخت مخالف اور ناقدین میں تھے ) امجد قادری روزانہ کی بنیاد پر (اس وقت) آنے والے وقت کا معاشی اور سیاسی تجزیہ پیش کرتا تھا ۔ ہم تمام دوستوں اور ساتھیوں پر اشتراکی اور کمیونسٹ ہونے کا ٹھپہ لگا ہوا تھا ۔ منور حسین بھٹی نے کمیونزم کی ایک نئی اختراع بقول اس کے دریافت کی تھی ۔ اور اس کا کہنا تھا کہ دنیا میں تہذیب کا آغاز لاہور سے دریائے راوی کے کناروں سے ہؤا تھا ۔ اس وقت ہی کمیونزم کا آغاز ہوا تھا ۔ اور اس نے اس موضوع پر انگریزی زبان میں ایک کتاب بھی لکھی تھی ۔ اور وہ اپنی اس کتاب کا خلاصہ اکثر ارشد مہند کی بیٹھک میں ہمارے سامنے بیان کیا کرتا تھا ۔ جو کہ ہماری عقل اور فراست سے باہر ہوتا تھا ۔ اور اس کے لیکچرر پر ہم صرف سر ہلایا کرتے تھے ۔ منور حسین بھٹی ایڈووکیٹ نے اپنا نام منور رام سنگھ مسیح رکھا ہوا تھا ۔ منور حسین بھٹی ایڈووکیٹ کسی وقت حافظ آباد میں دیوانی پریکٹس کا نمایاں نام تھا اور کبھی فوارہ چوک کے ساتھ دیوانی کچہری میں اس کا چمبر تھا ۔ میں ارشد مہند کی فوجداری کچہری سے آ کر ادھر آ جاتا تھا ۔ ادھر ہی شیخ محمد اسلم ایڈووکیٹ پی ایم صفدر کھرل خالد محمود تہامی نذر جعفری رائے عارف کھرل عارف رندھاوا ملک نصر پھلروان مختار بھٹی اظہر حسن کاظمی صاحبان سے خوب نشست رہتی تھی ۔ شیخ جاوید کے حافظ آباد سے لاہور منتقل ہونے پر منور بھٹی کا کہنا تھا کہ جاوید اگر حافظ آباد سے لاہور جاکر ایک کامیاب بڑا تاجر بن سکتا ہے ۔تو میں بھی لاہور جا کر ایک بڑا وکیل بن سکتا ہوں ۔ اور مزید یہ کہ حافظ آباد کا چھوٹا سا شہر اس کی علمی اور معاشی ترقی میں حائل ہے اور لاہور کے مختلف حلقوں میں وہ مارکسزم کی تشریح بہتر اور اچھے انداز سے کر سکتا ہے ۔ اس نے لاہور میں ہمارے مشترکہ دوست خالد محمود تہامی ایڈووکیٹ کے ساتھ مل کر ایک لا فرم بنائی ۔ جو کہ ناکام رہی۔ کیونکہ منور بھٹی اپنے پیشہ سے زیادہ مارکسزم کے پھیلاؤ کے دھیان میں لگ گئے تھے ۔ اور ان کو مشہور مارکسسٹ مشتاق راج صاحب کی صحبت میسر آگئی تھی ۔اور ان کی خصوصی توجہ کی بدولت اکثر ان کے ساتھ اپنا من مارنے اور نفس کشی کے لئے پیلا چوغہ پہن کر ہاتھ میں کشکول اٹھاے داتا صاحب کے دربار کے پاس بدھ بھکشوؤں کی طرح بھیک مانگتے تھے ۔ان کا موقف تھا کہ اس طرح کا عمل کرنے سے انسانی خواہشات پر قابو پایا جاسکتا ہے اور اپنے من کو قابو میں رکھا جاسکتا ہے ۔ اور میں بھی بدھ بھکشو ہوں۔ اور پھر آہستہ آہستہ وہ لاہور کی بھول بھلیوں میں گم ہو گیا ۔ اس کے ساتھ آخری چند ملاقاتیں حافظ آباد ہی میں ہوئی تھیں ۔ آخری مرتبہ حافظ آباد میں وہ میرے آفس میں آیا تھا ۔اور جاتے ہوئے اپنی ایک نئی کتاب اپنے ان الفاظ کے ساتھ اور تحریر کے ساتھ مجھے قیمتاً دے کر گیا ۔ اور کہہ کر گیا کہ عزیز علی یار میں تم سے اس کتاب کی چار گنا زیادہ قیمت لینے پر فخر محسوس کر رہا ہوں ۔ اور دوسرا تم کو اس کی قیمت ادا کرنے پر کوئی فرق نہ پڑے گا کیونکہ تم میری کتابوں اور علم کے بہت قدردان ہو اور سب سے بڑھ کر تم مالی طور پر آسودہ ہو۔اور دوسرے سب دوست تو کتاب خریدنے کی سکت ہی نہیں رکھتے ہیں ۔ حالانکہ اس کی لکھی کتابیں میری سمجھ سے بالا ہیں ۔ اور پھر اس رات ہی وہ ارشد مہند کی بیٹھک میں آیا ۔ چاے کا ایک کپ پیا اور سات آٹھ سگریٹ پھونکے ۔اور مشتاق راج کا بدھ مت سے مارکسزم سے مکس لیکچر زبردستی ہم کو سنایا اور رات کے ایک بجے کے لگ بھگ ہم سے رخصت ہو گیا ۔ یہ ہماری اس کے ساتھ آخری ملاقات تھی ۔ اور پھر ایک دن علم ہوا کہ اس کی اچانک لاہور میں وفات ہوگئی ہے اور اب وہ بھی دیگر ہمارے کئی مشترکہ دوستوں کے حافظ آباد کے بڑے قبرستان نزد ریلوے لائن ابدی نیند سو رہا ہے ۔ ارشد مہند حافظ آباد میں فوجداری کا اچھا اور نمایاں وکیل ہے۔ مگر اس کی بد قسمتی کہیں یا خوش قسمتی کہ وہ اپنے گاہک کے ساتھ ہمیشہ سچ بولتا ہے ۔ اگر کسی کی ضمانت ہونے والی ہو ۔تو اس کا کیس پڑھ کر اسے بتا دیتا ہے کہ میرٹ پر ہو جائے گی ۔اور جہاں اسے نظر آیا کہ اس کا کلائیٹ غلط ہے اور ناکامی کا خدشہ ہے تو وہ پھر ان کو کہہ دیتا ہے ۔کہ قانونی طور پر ان کی پوزیشن کمزور ہے ۔ تو اس طرح سچ بولنے پر وہ معاشی طور پر تو ہلکا ہے۔مگر اخلاقی طور پر بہت امیر ہے۔ ارشد مہند کی حافظ آباد میں پہچان ایک پیشہ ور اور دیانت دار وکیل اور شخص کی ہے ۔اس کا کچہری میں کمرہ جونئیر وکلاء اور مہمانوں سے بھرا ہوتا ہے ۔ اور اس کے کمرے میں ہر آنے والے کے لئے یہاں سے چاے پی کر جانی لازم ہے ۔ اور چاے کے ساتھ مٹھائی لازمی ملتی ہے کیونکہ ارشد مہند میٹھے کا بہت شوقین ہے ۔ کبھی احسن بھون ، نسیم اللہ چھٹہ ، قمر جاوید گجر ، رائے ریاست ، سید ظفر علی شاہ ، اور دیگران ارشد مہند کے چمبر میں بیٹھنے والے ہوتے تھے ارشد مہند حافظ آباد ڈسٹرکٹ بار کے صدر بھی رہے ہیں ۔اب بھی مجھے شام کے وقت فرصت ہو تو میں سیدھا ان کے گھر ان کی بیٹھک میں چلا جاتا ہوں ۔ ہم گزرے وقت کی باتیں کرتے ہیں ۔شیخ جاوید لاہور ہوتا ہے ۔مولانا سیف علی نجفی حکیم بوٹا حافظ شفیق الرحمن خالد تہامی حکیم قاضی محمد اقبال منور بھٹی امجد قادری دائمی رخصت پر جا چکے ہیں ۔اور میں ارشد مہند کی بیٹھک کو غور سے دیکھتا ہوں ۔ اور پھر ایک عجیب طرح کی اداسی مجھ پر طاری ہو جاتی ہے ۔ میں اور ارشد مہند کسی نئی کتاب کی بات کرتے ہیں ۔کچھ ادھر ادھر کی باتیں ہوتی ہیں ۔ اور پھر چائے پینے کے دوران میں ہم خاموش ہی رہتے ہیں ۔اور کہاں وہ وقت ہوتا تھا ۔ کہ ہم سب دوستوں کے آگے چائے پڑی ٹھنڈی ہو جاتی تھی ۔ اور ہماری باتیں ختم ہونے کا نام نہیں لیتی تھیں ۔ اور پوری پوری رات ہی یوں بیت جاتی تھی ۔ اور اب چاہے کا کپ ختم ہوتے ہی میرے منہ سے یہ الفاظ نکلتے ہیں ۔ کہ اچھا چئیر مین صاحب اب میں گھر جا رہا ہوں ۔اور محمد ارشد مہند ایڈووکیٹ صاحب کہتے ہیں ۔کہ ابھی تو آے ہو اور اتنی جلد واپس بھی جا رہے ہو۔ اور میں ان کو کہتا ہوں ۔کہ ایک ضروری کام ہے ۔اور بوجھل قدموں اور اداس دل کے ساتھ ان کی بیٹھک سے رخصت ہو جاتا ہوں ۔

Site Admin

MBBS MD

Share This :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Need Help?