Purana Haspatal

حافظ آباد کی تاریخ کے گمشدہ اوراق پرانا ہسپتال 1849 میں انگریزوں نے پنجاب کا اقتدار اپنے ہاتھوں میں لیتے ہی یہاں پر کئی نمایاں کام کئے ۔ان نمایاں کاموں میں یہاں کے عام لوگوں کو طبی سہولیات کی فراہمی سر فہرست تھی۔ حافظ آباد میں ابتدائی ڈسپنسری کا قیام 1854 کو عمل میں آگیا تھا ۔ حافظ آباد کی ابتدائی ڈسپنسری جلال پور روڈ جہاں اس وقت ڈی ایس پی پولیس کا دفتر اور رہائش گاہ ہے۔ وہاں واقع تھی ۔ اس کا مرکزی دروازہ جلال پور روڈ پر تھا ۔اور ایک چھوٹا دروازہ دربار روڈ پر تھا ۔ یہ مقام اس وقت شہر کے جنوبی دروازے کے پاس تھا ۔ اور کبھی یہ علاقہ شہر کا بارونق حصہ تھا ۔وجہ یہ تھی کہ دربار صاحب ، دیوی دوارہ ، سید بابن شاہ بخآری کا مزار ، ہسپتال اور ڈاکخانہ سب اسی طرف تھے ۔ اس ڈسپنسری یا ہسپتال کے احاطہ میں کھٹے ،میٹھے اور اناروں کے درخت تھے ۔جن کو پھل لگتا تھا ۔ وہاں سبزی بھی خوب پیدا ہوتی تھی ۔ ہسپتال کے سامنے سڑک پر بے شمار درخت تھے ۔ جہاں گرمیوں میں لوگ چارپائیاں بچھا کر سوتے تھے ۔ یا تاش اور چوپٹ کھیلتے تھے ۔ یہ شفا خانہ براہ راست سول سرجن صاحب گوجرانولہ کے تحت ضلع گوجرانولہ بننے کے بعد تھا ۔سال میں دو یا تین مرتبہ سول سرجن صاحب ادھر کا انتظامی دورہ کرتے تھے ۔ پورے شہر اور گردونواح کی صفائی کو دیکھتے ۔ان کے ساتھ ایک موبائل ڈسپنسری بھی ہوتی تھی ۔جس میں وبائی امراض کے متعلق ادویات ہوتی تھیں ۔ پہلے اس ڈسپنسری یا ہسپتال کے انچارج ایک اسسٹنٹ سول سرجن تھے ۔ بعد میں جب ہسپتال علی پور روڈ منتقل ہوا تو وہاں پھر مستقل سول سرجن صاحب تعینات ہو گئے ۔ کہتے ہیں ۔ کہ جب شروع میں ڈاکٹر صاحب مریضوں کو اسٹیتھو سکوپ لگاتے تھے ۔ تو سب لوگ حیرانگی کے ساتھ ڈاکٹر صاحب کی طرف دیکھتے تھے ۔ اور مریض یوں خوفزدہ ہوتا تھا ۔کہ جیسے اسے ڈاکٹر صاحب نے کیا لگا دیا ہے ۔ جب ہسپتال بر لب علی پور سڑک چلا گیا تو وہاں اس کی بہت اچھی نئی اور وسیع عمارت بنی ۔اس نئی عمارت کی تعمیر میں حافظ آباد کے کئی مخیر حضرات نے بھی اپنا حصہ ڈالا ۔ ان میں مسٹر کانشی رام کپور کرشن گوپال کپور نمایاں تھے ۔ تقسیم سے قبل بھی یہاں حافظ آباد کے عوام کو بہترین طبی سہولیات میسر تھیں ۔اس ہسپتال کا ڈیڈ ہاؤس یا مردہ کوٹھی بر لب سیم کنارے ویرانہ میں تھی۔ اور وہیں پوسٹ مارٹم کیا جاتا تھا ۔ زچہ بچہ کا سنٹر ڈاکخانہ روڈ پر واقع تھا ۔ جس کی انچارج ایل ایچ وی ہوتی تھی ۔اور اسے میڈیم کہا جاتا تھا ۔ تقسیم کے بعد سول ہسپتال علی پور روڈ میں حافظ آباد کے ایک مخیر شخص جن کا نام میاں محمد امین تھا ۔اور ان کاتعلق موضع کولو تارڑ سے تھا ۔نے اپنے مرحوم والد محترم شیخ غلام محی الدین کی یاد میں ایک بڑا جنرل وارڈ اور آپریشن تھیٹر بنوا کر دیا تھا ۔یہ ساٹھ کی دہائی کے شروع کی بات ہے۔ میاں محمد امین لاہور کے ایمبیسیڈر اور انٹرنیشنل ہوٹل کے مالکان میں سے تھے ۔ اور اس وقت کے پاکستان کے بڑے تاجروں میں ان کا شمار ہوتا تھا ۔ یہ ہسپتال کافی دیر ادھر رہا ۔پھر 1980 کے لگ بھگ یہ ہسپتال برلب کولو تارڑ روڈ آگیا ۔ اس ہسپتال کی اس جگہ منتقلی کے لئے ستر کی دہائی کے پاکستان پیپلز پارٹی کے ایم پی اے سید فدا حسین شاہ مرحوم نے خصوصی کاوش کی تھی ۔ اس ہسپتال کے لئے ڈاکٹر محمد صادق چوہدری کی بہت خدمات ہیں ۔یاد رہے جب اس موجودہ ہسپتال کو ڈسٹرکٹ ہسپتال کا درجہ دیا گیا تھا ۔تو وہ اس ہسپتال کے پہلے میڈیکل سپرنٹینڈنٹ تھے ۔

Site Admin

MBBS MD

Share This :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Need Help?