Prince Kareem Agha In Hafizabad

حافظ آباد کی تاریخ کے گمشدہ اوراق سر کریم آغا خان (چہارم) کی حافظ آباد آمد 1964ء کا ذکر ہے ۔اسمعیلی فرقہ کے سب سے بڑے روحانی پیشوا اور حاضر امام ہز ہائی نس سر کریم آغا خان پاکستان تشریف لائے ۔ اور پھر حافظ آباد میں بھی یہ اطلاع عام ہو گئی کہ پرنس سر کریم آغا خان محدود وقت کے لئے حافظ آباد بھی تشریف لائیں گے۔ان کی حافظ آباد آمد کی اطلاع پر حافظ آباد کی اسمعیلی برادری میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ اس وقت اسمعیلی برادری کی ایک عبادت گاہ جس کو ( جماعت خانہ کہا جاتا ہے ) رام بھون روڈ ( فاروق اعظم روڈ) پر تھی۔اور مرکزی جماعت خانہ کی وسیع وعریض عمارت جو کہ 1963 ء میں خرید کی گئی تھی ۔ ڈاکخانہ روڈ پر نزد موجودہ چوک فاروق اعظم پر تھی ۔اور ہے ۔ یہ ڈاکخانہ روڈ والی مرکزی جماعت خانہ کی عمارت میرے گھر کے بالکل نزدیک ہے۔حافظ آباد کی اسمعیلی برادری نے پرنس سر کریم آغا خان کی متوقع آ مد پر ان کے عظیم الشان استقبال کی زور وشور سے تیاریاں شروع کردیں ۔ اسمعیلی برادری کے خوبصورت چاک وچوبند نوجوان خوبصورت وردیوں میں ملبوس بینڈ باجوں کے ساتھ بالکل فوجی انداز میں صبح سے رات دیر گئے تک پریڈ کی شکل میں ڈاکخانہ روڈ پر بینڈ باجے بجانے کی مشق کرتے ۔اور اس کے ساتھ ہی گجگا کا کھیل بھی کھیلا جاتا تھا ۔ یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا ۔ مجھے یاد ہے ۔کہ بینڈ باجے کی آواز جونہی میرے کانوں میں گونجتی ۔میں ایک دم سے اپنے گھر کی منڈھیر سے جو کہ سڑک کی جانب تھی۔ سے نیچے جھانکتا ۔اور پھر بڑی تیزی کے ساتھ اپنے گھر سے کھلی سڑک پر آکر اپنے یار دوستوں کے ساتھ مل جاتا۔اور پھر ہم رات گئے جب تک کہ وہ لوگ اپنا بینڈ باجہ بجانا ختم نہ کرتے تھے ۔ان کے ساتھ ہی رہتے تھے ۔ جس دن سر کریم آغا خان کی حافظ آباد آمد ہوئی ۔ حافظ آباد میں عام تعطیل تھی۔ تمام اسکولوں میں چھٹی تھی۔ پرنس کریم آغا خان چہارم حکومت پاکستان کے سرکاری مہمان تھے ۔اور ان کا پروٹوکول ایک شاہی مہمان والا تھا ۔ حافظ آباد میں اس وقت ان کے استقبال کے لئے پوری تحصیل ضلعی اور ڈویژن کی انتظامیہ موجود تھی۔ حافظ آباد میں ان کا عظیم الشان استقبال کیا گیا ۔ انہوں نے جہاں سے گزرنا تھا ۔وہاں آرائشیی دروازے بنائے گئے ۔ اس وقت پورا حافظ آباد صاف ستھرا اور اجلا نظر آ رہا تھا ۔رات کو وسیع پیمانہ پر چراغاں کیا گیا تھا ۔اسمعیلی برادری کے مرد وزن اور بچوں نے نئے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ اور ان سب کے چہرے ایک انجانی خوشی سے دمک رہے تھے ۔ میں نے اپنی اس وقت کی مختصر عمر میں اس طرح ان لوگوں کو خوشی سے نہال نہ دیکھا تھا ۔ کیونکہ بہت اسمعیلی لڑکے میرے قریبی دوست تھے ۔ اور ہم سب لوگوں کے گھر بھی پاس اور ایک دوسرے سے ملحقہ تھے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے ۔کہ جب پرنس کریم آغا خان ہمارے ڈاکخانہ روڈ پر تشریف لائے ۔ تو ان کے آگے سفید وردیوں میں ملبوس خوبصورت چاک وچوبند اسمعیلی نوجوان بینڈ باجے والوں کا دستہ تھا ۔اور چوک ونیکی سے لے کر فاروق اعظم چوک تک خواتین مردوں اور بچوں کا جم غفیر تھا ۔ اور جو سب اپنے حاضر امام کی جھلک دیکھ کر بلند آواز کے ساتھ کوئی دعائیہ کلمات پڑھ رہے تھے ۔ یہ ان سب کی بہت خوش نصیبی تھی ۔کہ اپنی حیات ہی میں اپنے حاضر امام کی زیارت کر رہے ہیں ۔میں اور میرے سب گھر والے اور ہمارے عزیز واقارب اور گلی والے چھت پر موجود تھے ۔ اور ہمارے گھر میں بھی خوب گہما گہمی تھی ۔ ہمارے گھر کی چھت سے باہر سڑک کے مناظر بہت اچھی طرح دیکھے جا رہے تھے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے ۔کہ میں نے ایک لمحہ کے لئے ہی پرنس سر کریم آغا خان کی جھلک دیکھی تھی ۔اور میں ان کا سرخ وسفید خوشی سے بھرپور چہرہ آج تک نہ بھلا پایا ہوں ۔ وہ ہمارے گھر کے سامنے سے سیدھا جماعت خانہ کی طرف چلے گئے ۔ وہ کچھ دیر ہی حافظ آباد ٹھہرے۔ اور یہاں انہوں نے حافظ آباد میں یہاں کے بچوں کے تعلیم کے لئے حافظ آباد کے کالج کے لئے پچاس ہزار روپے کی رقم کا اعلان کیا ۔جو کہ اس وقت ایک خطیر رقم تھی ۔مجھے یاد پڑتا ہے ۔کہ اس وقت حافظ آباد کی کالج کمیٹی کی طرف سے چوہدری مظفر احمد باجوہ ایڈووکیٹ نے اس رقم کے لئے سر کریم آغا خان کا شکریہ ادا کیا تھا ۔ ہمیں بعد میں علم ہوا ۔کہ حافظ آباد کی کالج کمیٹی نے اپنی طرف سے کالج کے لئے جھجکتے ہوئے اس رقم کا مطالبہ کیا تھا ۔ اور بعد میں وہ ہاتھ ملتے رہ گئے تھے ۔کیونکہ پرنس سر کریم آغا خان تعلیم کے حصول کے اداروں کو خاص کر پسماندہ علاقے کے تعلیمی اداروں کو کھلے دل سے امداد دیتے تھے ۔کیونکہ وہ چاہتے تھے ۔کہ پسماندہ علاقوں کے پسماندہ طبقات کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں ۔ پرنس سر کریم آغا خان کی حافظ آباد آمد میرے دل پر آج بھی نقش ہے ۔اور میرے لئے ناقابل فراموش واقعہہ

ے ۔حافظ آباد کی تاریخ کے گمشدہ اوراق سر کریم آغا خان (چہارم) کی حافظ آباد آمد 1964ء کا ذکر ہے ۔اسمعیلی فرقہ کے سب سے بڑے روحانی پیشوا اور حاضر امام ہز ہائی نس سر کریم آغا خان پاکستان تشریف لائے ۔ اور پھر حافظ آباد میں بھی یہ اطلاع عام ہو گئی کہ پرنس سر کریم آغا خان محدود وقت کے لئے حافظ آباد بھی تشریف لائیں گے۔ان کی حافظ آباد آمد کی اطلاع پر حافظ آباد کی اسمعیلی برادری میں خوشی کی لہر دوڑ گئی ۔ اس وقت اسمعیلی برادری کی ایک عبادت گاہ جس کو ( جماعت خانہ کہا جاتا ہے ) رام بھون روڈ ( فاروق اعظم روڈ) پر تھی۔اور مرکزی جماعت خانہ کی وسیع وعریض عمارت جو کہ 1963 ء میں خرید کی گئی تھی ۔ ڈاکخانہ روڈ پر نزد موجودہ چوک فاروق اعظم پر تھی ۔اور ہے ۔ یہ ڈاکخانہ روڈ والی مرکزی جماعت خانہ کی عمارت میرے گھر کے بالکل نزدیک ہے۔حافظ آباد کی اسمعیلی برادری نے پرنس سر کریم آغا خان کی متوقع آ مد پر ان کے عظیم الشان استقبال کی زور وشور سے تیاریاں شروع کردیں ۔ اسمعیلی برادری کے خوبصورت چاک وچوبند نوجوان خوبصورت وردیوں میں ملبوس بینڈ باجوں کے ساتھ بالکل فوجی انداز میں صبح سے رات دیر گئے تک پریڈ کی شکل میں ڈاکخانہ روڈ پر بینڈ باجے بجانے کی مشق کرتے ۔اور اس کے ساتھ ہی گجگا کا کھیل بھی کھیلا جاتا تھا ۔ یہ ان کا روزانہ کا معمول تھا ۔ مجھے یاد ہے ۔کہ بینڈ باجے کی آواز جونہی میرے کانوں میں گونجتی ۔میں ایک دم سے اپنے گھر کی منڈھیر سے جو کہ سڑک کی جانب تھی۔ سے نیچے جھانکتا ۔اور پھر بڑی تیزی کے ساتھ اپنے گھر سے کھلی سڑک پر آکر اپنے یار دوستوں کے ساتھ مل جاتا۔اور پھر ہم رات گئے جب تک کہ وہ لوگ اپنا بینڈ باجہ بجانا ختم نہ کرتے تھے ۔ان کے ساتھ ہی رہتے تھے ۔ جس دن سر کریم آغا خان کی حافظ آباد آمد ہوئی ۔ حافظ آباد میں عام تعطیل تھی۔ تمام اسکولوں میں چھٹی تھی۔ پرنس کریم آغا خان چہارم حکومت پاکستان کے سرکاری مہمان تھے ۔اور ان کا پروٹوکول ایک شاہی مہمان والا تھا ۔ حافظ آباد میں اس وقت ان کے استقبال کے لئے پوری تحصیل ضلعی اور ڈویژن کی انتظامیہ موجود تھی۔ حافظ آباد میں ان کا عظیم الشان استقبال کیا گیا ۔ انہوں نے جہاں سے گزرنا تھا ۔وہاں آرائشیی دروازے بنائے گئے ۔ اس وقت پورا حافظ آباد صاف ستھرا اور اجلا نظر آ رہا تھا ۔رات کو وسیع پیمانہ پر چراغاں کیا گیا تھا ۔اسمعیلی برادری کے مرد وزن اور بچوں نے نئے کپڑے پہنے ہوئے تھے۔ اور ان سب کے چہرے ایک انجانی خوشی سے دمک رہے تھے ۔ میں نے اپنی اس وقت کی مختصر عمر میں اس طرح ان لوگوں کو خوشی سے نہال نہ دیکھا تھا ۔ کیونکہ بہت اسمعیلی لڑکے میرے قریبی دوست تھے ۔ اور ہم سب لوگوں کے گھر بھی پاس اور ایک دوسرے سے ملحقہ تھے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے ۔کہ جب پرنس کریم آغا خان ہمارے ڈاکخانہ روڈ پر تشریف لائے ۔ تو ان کے آگے سفید وردیوں میں ملبوس خوبصورت چاک وچوبند اسمعیلی نوجوان بینڈ باجے والوں کا دستہ تھا ۔اور چوک ونیکی سے لے کر فاروق اعظم چوک تک خواتین مردوں اور بچوں کا جم غفیر تھا ۔ اور جو سب اپنے حاضر امام کی جھلک دیکھ کر بلند آواز کے ساتھ کوئی دعائیہ کلمات پڑھ رہے تھے ۔ یہ ان سب کی بہت خوش نصیبی تھی ۔کہ اپنی حیات ہی میں اپنے حاضر امام کی زیارت کر رہے ہیں ۔میں اور میرے سب گھر والے اور ہمارے عزیز واقارب اور گلی والے چھت پر موجود تھے ۔ اور ہمارے گھر میں بھی خوب گہما گہمی تھی ۔ ہمارے گھر کی چھت سے باہر سڑک کے مناظر بہت اچھی طرح دیکھے جا رہے تھے ۔ مجھے یاد پڑتا ہے ۔کہ میں نے ایک لمحہ کے لئے ہی پرنس سر کریم آغا خان کی جھلک دیکھی تھی ۔اور میں ان کا سرخ وسفید خوشی سے بھرپور چہرہ آج تک نہ بھلا پایا ہوں ۔ وہ ہمارے گھر کے سامنے سے سیدھا جماعت خانہ کی طرف چلے گئے ۔ وہ کچھ دیر ہی حافظ آباد ٹھہرے۔ اور یہاں انہوں نے حافظ آباد میں یہاں کے بچوں کے تعلیم کے لئے حافظ آباد کے کالج کے لئے پچاس ہزار روپے کی رقم کا اعلان کیا ۔جو کہ اس وقت ایک خطیر رقم تھی ۔مجھے یاد پڑتا ہے ۔کہ اس وقت حافظ آباد کی کالج کمیٹی کی طرف سے چوہدری مظفر احمد باجوہ ایڈووکیٹ نے اس رقم کے لئے سر کریم آغا خان کا شکریہ ادا کیا تھا ۔ ہمیں بعد میں علم ہوا ۔کہ حافظ آباد کی کالج کمیٹی نے اپنی طرف سے کالج کے لئے جھجکتے ہوئے اس رقم کا مطالبہ کیا تھا ۔ اور بعد میں وہ ہاتھ ملتے رہ گئے تھے ۔کیونکہ پرنس سر کریم آغا خان تعلیم کے حصول کے اداروں کو خاص کر پسماندہ علاقے کے تعلیمی اداروں کو کھلے دل سے امداد دیتے تھے ۔کیونکہ وہ چاہتے تھے ۔کہ پسماندہ علاقوں کے پسماندہ طبقات کے بچے اعلیٰ تعلیم حاصل کریں ۔ پرنس سر کریم آغا خان کی حافظ آباد آمد میرے دل پر آج بھی نقش ہے ۔اور میرے لئے ناقابل فراموش واقعہ ہے ۔

از عزیز علی شیخ



Site Admin

MBBS MD

Share This :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Need Help?