Samadh Bawa Bhan Shah

حافظ آباد کی تاریخ کے گمشدہ اوراق سمادھ باوہ بھان شاہ ( موجودہ دفتر ٹریفک پولیس حافظ آباد) یہ مقام حافظ آباد کی ہندو برادری کے لئے بہت متبرک تھا ۔ یہ مقام برلب گول سڑک بالمقابل چاہ کالا تکیہ( مالکان قاضی مقبول صاحب) کےمغرب کی جانب واقع تھا ۔ اس کا بڑا پھاٹک سڑک پر تھا ۔ یہ مقام بہت وسیع وعریض تھا ۔ اس مقام کے اندر بڑا وسیع صحن تھا ۔جس کے درمیان میں ایک کنواں تھا ۔اور اس کنواں کے پاس ہی ایک بڑا قدیمی بوہڑ کا درخت تھا ۔جس کے نیچے گرمیوں میں لوگ چارپائیاں بچھا کر سوتے تھے ۔ احاطہ کے جنوب کی طرف ایک مسافر خانہ تھا ۔ جس میں مسافروں کے قیام کے لئے کوٹھڑیاں بنی ہوئی تھیں ۔ صحن کے مغرب کی طرف سمادھ تھی ۔ جس کا ایک دروازہ اس صحن کی طرف اور دوسرا گلی میں کھلتا تھا ۔ سمادھ کی پچھلی طرف ڈیرہ تھا ۔ جس کا دروازہ صحن میں تھا ۔اس میں ایک طرف لنگر خانہ تھا ۔ اور باقی دونوں اطراف کمرے تھے ۔ جہاں براتیں قیام کرتی تھیں ۔ عام مشہور تھا ۔کہ باوہ بھان شاہ ایک پہنچے ہوئے بزرگ تھے ۔ (بقول یہاں کی ہندو برادری کے) اور یہاں کی مقامی ہندو برادری کے دل میں ان کے لئے بہت عزت اور احترام تھا ۔ اس مقام کے ایک قدیمی ڈیرہ دار باوہ ارجن داس تھے ۔جو کہ حافظ آباد کے موضع مرادیاں کے رہنے والے تھے ۔ وہ سمادھ کے پجاری تھے ۔ان کی وفات کے بعد باوہ بلاقی جی اس سمادھ کے پجاری اور ڈیرہ دار بنے۔ اور تقسیم تک وہی ہی تھے ۔ انہوں نے اپنے اس مقدس مقام کا بہت خیال رکھا تھا ۔اس سمادھ کے لئے سنگ مرمر کا استعمال کیا گیا تھا ۔اور فرش بہت خوبصورت تھا۔ یہاں ایک اور سنگ مرمر سے تعمیر کردہ سمادھی بھی تھی۔ جس پر شکنتلا دیوی لکھا ہوا میں نے خود پڑھا ہوا ہے ۔ کبھی باوہ بھان شاہ کی سمادھ کے مغرب میں ایک کھلا میدان تھا ۔ جہاں تقسیم تک کئی مکانات تعمیر ہو گئے تھے ۔ کبھی یہ ساری زمین خالی تھی ۔ اور اس کی سطح نیچی تھی ۔ اس لئے یہاں ہمیشہ بارشوں کا پانی جمع رہتا تھا ۔ اور ادھر ون اور بیریوں کے بہت درخت تھے ۔ باوہ بھان شاہ کی سمادھ پر شو راتری کے دن ایک بڑا میلہ لگتا تھا ۔ اور اس دن وسیع پیمانہ پر لنگر کا انتظام کیا جاتا تھا ۔ اس دن مقامی لوگوں کے علاؤہ حافظ آباد کے باہر سے بھی باوہ بھان شاہ کے ماننے والے بھاری تعداد میں یہاں آتے تھے ۔ اور سمادھ پر نزرانے چڑھاتے تھے ۔ میلہ کے دن سارے انتظامات لالہ بشن داس کپور کے پاس ہوتے تھے ۔ اور ایک طرح سے یہاں کا سارا انتظام کپوروں کے پاس ہی ہوتا تھا ۔ شام کو میلے کے اختتام پر لنگر بھی ختم ہو جاتا تھا ۔ یہ حافظ آباد کی ایک تاریخی عمارت تھی ۔ افسوس یہ قدیم عمارت بھی ختم ہو چکی ہے ۔ سمادھ والی جگہہ پر کسی نے محکمہ اوقاف سے مل کر اپنا مکان بنا لیا ہے ۔ اور کچھ حصے پر ٹریفک پولیس کے دفاتر ہیں ۔ جنوب کی طرف بھی کسی نے اپنا رہائشی مکان بنایا ہوا ہے۔ اور میرے خیال میں چونکہ ہمارا وطن عزیز ہی متروکہ املاک میں شامل ہے۔ اس لئے اس کو ہر طریقے سے لوٹنا جس کا ہاتھ پڑے ۔اس کا حق ہے ۔ حافظ آباد میں کئی مذہبی مقامات ایسے ہیں ۔جن کو اگر ابھی بھی سنبھال لیا جائے ۔تو مذہبی سیاحت سے پاکستان کو لاکھوں ڈالر سالانہ کی آمدنی ہو سکتی ہے ۔ مگر یہ سب کچھ ایک دیوانے کا خواب ہے ۔یہ مقام حافظ آباد کے کپوروں کے لئے بہت اہم اور متبرک تھا ۔ اس مقام پر میرے میزبان رانا خالد صاحب تھے ۔اور میرا عرصہ دراز سے ان کےساتھ باہمی احترام اور دوستی کا رشتہ ہے۔حافظ آباد کی تاریخ کے گمشدہ اوراق سمادھ باوہ بھان شاہ ( موجودہ دفتر ٹریفک پولیس حافظ آباد) یہ مقام حافظ آباد کی ہندو برادری کے لئے بہت متبرک تھا ۔ یہ مقام برلب گول سڑک بالمقابل چاہ کالا تکیہ( مالکان قاضی مقبول صاحب) کےمغرب کی جانب واقع تھا ۔ اس کا بڑا پھاٹک سڑک پر تھا ۔ یہ مقام بہت وسیع وعریض تھا ۔ اس مقام کے اندر بڑا وسیع صحن تھا ۔جس کے درمیان میں ایک کنواں تھا ۔اور اس کنواں کے پاس ہی ایک بڑا قدیمی بوہڑ کا درخت تھا ۔جس کے نیچے گرمیوں میں لوگ چارپائیاں بچھا کر سوتے تھے ۔ احاطہ کے جنوب کی طرف ایک مسافر خانہ تھا ۔ جس میں مسافروں کے قیام کے لئے کوٹھڑیاں بنی ہوئی تھیں ۔ صحن کے مغرب کی طرف سمادھ تھی ۔ جس کا ایک دروازہ اس صحن کی طرف اور دوسرا گلی میں کھلتا تھا ۔ سمادھ کی پچھلی طرف ڈیرہ تھا ۔ جس کا دروازہ صحن میں تھا ۔اس میں ایک طرف لنگر خانہ تھا ۔ اور باقی دونوں اطراف کمرے تھے ۔ جہاں براتیں قیام کرتی تھیں ۔ عام مشہور تھا ۔کہ باوہ بھان شاہ ایک پہنچے ہوئے بزرگ تھے ۔ (بقول یہاں کی ہندو برادری کے) اور یہاں کی مقامی ہندو برادری کے دل میں ان کے لئے بہت عزت اور احترام تھا ۔ اس مقام کے ایک قدیمی ڈیرہ دار باوہ ارجن داس تھے ۔جو کہ حافظ آباد کے موضع مرادیاں کے رہنے والے تھے ۔ وہ سمادھ کے پجاری تھے ۔ان کی وفات کے بعد باوہ بلاقی جی اس سمادھ کے پجاری اور ڈیرہ دار بنے۔ اور تقسیم تک وہی ہی تھے ۔ انہوں نے اپنے اس مقدس مقام کا بہت خیال رکھا تھا ۔اس سمادھ کے لئے سنگ مرمر کا استعمال کیا گیا تھا ۔اور فرش بہت خوبصورت تھا۔ یہاں ایک اور سنگ مرمر سے تعمیر کردہ سمادھی بھی تھی۔ جس پر شکنتلا دیوی لکھا ہوا میں نے خود پڑھا ہوا ہے ۔ کبھی باوہ بھان شاہ کی سمادھ کے مغرب میں ایک کھلا میدان تھا ۔ جہاں تقسیم تک کئی مکانات تعمیر ہو گئے تھے ۔ کبھی یہ ساری زمین خالی تھی ۔ اور اس کی سطح نیچی تھی ۔ اس لئے یہاں ہمیشہ بارشوں کا پانی جمع رہتا تھا ۔ اور ادھر ون اور بیریوں کے بہت درخت تھے ۔ باوہ بھان شاہ کی سمادھ پر شو راتری کے دن ایک بڑا میلہ لگتا تھا ۔ اور اس دن وسیع پیمانہ پر لنگر کا انتظام کیا جاتا تھا ۔ اس دن مقامی لوگوں کے علاؤہ حافظ آباد کے باہر سے بھی باوہ بھان شاہ کے ماننے والے بھاری تعداد میں یہاں آتے تھے ۔ اور سمادھ پر نزرانے چڑھاتے تھے ۔ میلہ کے دن سارے انتظامات لالہ بشن داس کپور کے پاس ہوتے تھے ۔ اور ایک طرح سے یہاں کا سارا انتظام کپوروں کے پاس ہی ہوتا تھا ۔ شام کو میلے کے اختتام پر لنگر بھی ختم ہو جاتا تھا ۔ یہ حافظ آباد کی ایک تاریخی عمارت تھی ۔ افسوس یہ قدیم عمارت بھی ختم ہو چکی ہے ۔ سمادھ والی جگہہ پر کسی نے محکمہ اوقاف سے مل کر اپنا مکان بنا لیا ہے ۔ اور کچھ حصے پر ٹریفک پولیس کے دفاتر ہیں ۔ جنوب کی طرف بھی کسی نے اپنا رہائشی مکان بنایا ہوا ہے۔ اور میرے خیال میں چونکہ ہمارا وطن عزیز ہی متروکہ املاک میں شامل ہے۔ اس لئے اس کو ہر طریقے سے لوٹنا جس کا ہاتھ پڑے ۔اس کا حق ہے ۔ حافظ آباد میں کئی مذہبی مقامات ایسے ہیں ۔جن کو اگر ابھی بھی سنبھال لیا جائے ۔تو مذہبی سیاحت سے پاکستان کو لاکھوں ڈالر سالانہ کی آمدنی ہو سکتی ہے ۔ مگر یہ سب کچھ ایک دیوانے کا خواب ہے ۔یہ مقام حافظ آباد کے کپوروں کے لئے بہت اہم اور متبرک تھا ۔ اس مقام پر میرے میزبان رانا خالد صاحب تھے ۔اور میرا عرصہ دراز سے ان کے ساتھ باہمی احترام اور دوستی کا رشتہ ہے۔

عزیز علی شیخ 

Site Admin

MBBS MD

Share This :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Need Help?