Gumshuda Auraq

حافظ آباد کی تاریخ کے گمشدہ اوراق غلہ منڈی شرقی ( منڈی بلاقی رام) 70 ۔1761 کے دوران جب موجودہ حافظ آباد نئے سرے سے آباد ہوا تھا ۔ تو پہلی دانہ منڈی کا نام جواہر مل کی منڈی تھا ۔اور یہ کبھی حافظ آباد کے مرکزی شرقی دروازے جس کو اکبری دروازہ بھی کہا جاتا ہے ۔کے بالکل سامنے سڑک پار تھی ۔ پھر دوسری منڈی چوک فاروق اعظم ڈاکخانہ روڈ کے پاس آرائیاں والا بازار میں تھی ۔اس کا نام مولراج کی منڈی تھا ۔ اور پھر تیسری منڈی مین بازار میں جہاں باڑہ مارکیٹ ہے ۔ تھی۔ اس کا نام تیرتھ رام کی منڈی تھا ۔ پھر ایک منڈی موجودہ بجلی محلہ کے پاس تھی ۔جس کو نئی منڈی کہا جاتا تھا ۔ 89 18۔1885 کے دوران حافظ آباد کے علاقے میں نہری نظام کی وجہ سے زمین کی کاشت بہتر ہو گئی ۔اور پھر 1895 میں ریلوے لائن بچھ جانے سے حافظ آباد سے دساور کو غلہ کی ترسیل آسان ہو گئی ۔ اور پھر اب حافظ آباد کے گردونواح سے حافظ آباد کی منڈی میں بکثرت مال آنا شروع ہو گیا تھا ۔ اور غلہ خریدنے والی کمپنیوں مثلاً رالی برادرز، سنڈے پیٹرک، لوس وغیرہ نے اپنے دفتر حافظ آباد میں کھول لئے تھے ۔ اور حافظ آباد میں تجارتی سرگرمیاں عروج پر تھیں ۔اور حافظ آباد میں ایک نئی منڈی کی ضرورت محسوس ہونے لگی تھی ۔ کیونکہ پہلی منڈی چھوٹی پڑ گئی تھی ۔ یہ 96۔1895 کے لگ بھگ کی بات ہے ۔ پھر اس وقت بیرسٹر بلاقی رام چوپڑہ جوکہ ان ایام میں حافظ آباد میں مقیم تھے ۔ نے ریلوے پھاٹک کے پار مشرق کی جانب برلب سڑک گوجرانوالہ زمین کا ایک بڑا قطعہ اراضی جو کہ قابلِ کاشت نہ تھا ۔اعوانوں سے مبلغ / 2100 روپیہ میں خریدا ۔ اور انہوں نے وہاں ایک نئی غلہ یا دانہ منڈی کی بنیاد رکھی ۔ انہوں نے اس منڈی کا بہت اچھا نقشہ بنوایا ۔دونوں اطراف بازار درمیان میں منڈی کی دوکانیں ،اور برلب سڑک سب دوکانیں درمیان میں منڈی کا بڑا دروازہ منڈی کے صحن کے درمیان میں ایک بڑا کنواں اور کونوں پر گدھے اور خچر کھڑا کرنے والی جگہہ۔منڈی کی دوکانوں کے پلاٹ ہاتھوں ہاتھ بہت اچھی قیمت پر فروخت ہو گئے ۔ اور بیرسٹر صاحب نے بہت روپیہ کمایا۔ پلاٹوں کے مالکان نے دنوں ہی میں وہاں دوکانیں تعمیر کر لیں ۔اور منڈی میں آ ڑھت اور بازار میں کریانہ اور بزازی کی بڑی بڑی دوکانیں کھل گئیں ۔ اور کاروباری سرگرمیاں زور وشور سے شروع ہو گئیں ۔ بیرسٹر بلاقی رام چوپڑہ نے اس نئی منڈی کا نام اپنے والد محترم کے نام پر مولراج گنج رکھا ۔اور اس نام کا ایک بڑا پتھر بھی صدر دروازے کے اوپر لگوایا تھا ۔ مگر یہ منڈی ان کے نام (بلاقی رام)پر ہی مشہور ہو گئی ۔ چند سال اس منڈی میں خوب گہما گہمی رہی۔ اور پہلی منڈی سے بہت سے آڑھتی ادھر منتقل ہو گئے ۔ ادھر آکر بیوپاریوں کو ایک مشکل محسوس ہونے لگی ۔ وہ یہ کہ یہ منڈی ریلوے کے پھاٹک کے اس پار تھی ۔ اور ریلوے کے مال گودام سے دور ۔ دوسرے ریلوے پھاٹک ریل گاڑیوں کی وجہ سے اکثر بند رہتا تھا ۔ اور ریلوے اسٹیشن کے مال گودام جانے والے مال سے بھرے ہوئے گڈے اور دوسری طرف سے منڈی میں باہر سے غلہ لانے والے گدھے خچر اور اونٹ ریلوے پھاٹک پر رکے رہتے تھے ۔ منڈی کے آڑھتیاں بیوپاریوں اور شہر داروں نے کئی مرتبہ ریلوے افسران سے ملاقاتیں کیں ۔اور ان سے درخواست کی ۔کہ ریلوے پھاٹک کے اوپر ایک پل بنا دیا جائے ۔ کیونکہ ریل گاڑیوں کی آمد اور خاص کر مال گاڑیوں کی شنٹنگ کی وجہ سے جو پھاٹک بار بار بند ہوتا ہے ۔وہ مسئلہ ختم ہو جائے ۔ افسران بالا کئی مرتبہ موقع دیکھ کر گئے ۔مگر مسئلہ حل نہ ہوا۔ چنانچہ پھر لالہ جوتی رام کپور ،نند لال ،اور گوردیال کپور نے اپنی زمین ( جہاں اب منڈی غربی ہے ) منڈی جوتی رام کے نام سے ایک نئی منڈی بنا دی۔ اس نئی منڈی کے بننے سے منڈی بلاقی رام کو کافی فرق پڑا تھا ۔اس منڈی کے ساتھ بازار میں بھی کریانہ بزازی اور بساطی کی دوکانیں تھیں ۔ اور  کپڑے کی دوکانوں پر خیاط بھی ہوتے تھے ۔ اس وقت پورے پنجاب میں حافظ آباد کا غلہ کی تجارت میں ایک نام تھا ۔ اور حافظ آباد چاول کی پیداوار کے لئے مشہور تھا ۔ اور یہاں کا چاول دور دور تک جاتا تھا ۔1947 تک حافظ آباد کی منڈی میں سے سالانہ دو کروڑ کا مال شہر سے باہر جاتا تھا ۔ اور حافظ آباد میں بیسیوں کی تعداد میں چاول کے چھوٹے بڑے کارخانے تھے ۔ اور حافظ آباد کے آڑھتیان منڈی اور کارخانہ دار مالی طور پر آسودہ تھے ۔اور ان کی بڑی تعداد انکم ٹیکس گزار تھی ۔ منڈی بلاقی رام میں ایک بڑا جنج گھر تھا ۔ جو کہ لالہ حویلی رام سیٹھی جی نے بنوایا تھا ۔اس کے علاؤہ ایک دھرم سالہ بھی تھی۔ تقسیم کے وقت یہاں کے تاجر اپنا سب کچھ چھوڑ چھاڑ کر یہاں سے چل دیئے ۔اور تقسیم کے بعد یہاں کے نمایاں آڑھتیان منڈی میں چوہدری دوست محمد بھون، میاں سلطان احمد ، چوہدری محمد حسین چھٹہ ، چوہدری عاشق نول، چوہدری محمد خاں بھون،چوہدری عبدالرشید چیمہ، ملک لال خاں اعوان ، ملک خالد ریاض اعوان ، رانا اسرار الحق ، حاجی ملک علی رضا اعوان ، رانا محمد حسین ماہی والہ، محمد افضل بھٹی، محمد منشاء دھوتڑ اور رانا سلیمان وغیرہ ( منڈی کے وزٹ کے دوران چوہدری ذوالفقار احمد چاند بھون صاحب کے تعاون اور میز بانی کے لئے ان کا بہت مشکور ہوں)

 

از عزیز علی شیخ

Site Admin

MBBS MD

Share This :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Need Help?