Wabaoon Ki Tareekh

حافظ آباد کی تاریخ کے گمشدہ اوراق
حافظ آباد میں وباؤں کی تاریخ صدیوں قبل ہنستی بستی اور آباد انسانی بستیاں یا تو قدرتی آفات خاص کر جن میں مختلف اقسام کی وبائیں شامل تھیں سے تباہ اور بے آباد ہوتی تھیں یا پھر بیرونی اور اندرونی حملہ آوروں کے ہاتھوں سے ۔پنجاب میں گزرے حالیہ قریبی وقت پلیگ یا طاعون کی وبا .1899ء میں پھیلی تھی ۔یہ وبا ہندوستان میں سب سے پہلے بمبئی میں ظاہر ہوئی تھی ۔بعد میں یہ ضلع جالندھر اور ہوشیار پور میں پھیل گئی تھی ۔اور پھر بڑی تیزی کے ساتھ پورے پنجاب میں اس وبا کا پھیلاؤ ہو گیا تھا ۔یہاں کے لوگوں نے اس سے پہلے کبھی پلیگ یا طاعون کا نام نہیں سنا تھا ۔عام طور پر یہی مشہور تھا کہ اس بیماری کے دوران ران کے جوڑ یا ٹخنہ ( گٹے) کے پاس ایک گلٹی نکلتی ہے ۔بخار ہو جاتا ہے ۔اور پھر مریض دم توڑ دیتا ہے ۔ عوام پر اس وبا کا بہت خوف طاری تھا ۔یہ موذی وبا فروری مارچ 1902 ء کو حافظ آباد میں بھی نمودار ہو گئی ۔حافظ آباد کے لوگ اس وبا کے ہاتھوں دوسرے علاقوں میں تباہی دیکھ کر سہمے ہوئے تھے ۔حافظ آباد کے بے شمار مردوزن اس وبا کی لپیٹ میں آ گئے ۔اور بہت سے لوگ شہر سے بھاگ گئے ۔کئی کئی گھرانوں کے تو دو دو چار افراد اکھٹے ہی چل بسے ۔حکیم وید اور ڈاکٹر اس بیماری اور اس کی تباہ کاریوں کو دیکھ کر حیران اور پریشان تھے ۔انہوں نے پہلے کبھی اس بیماری کا نام تک نہیں سنا تھا ۔اس لئے ان کے پاس اس بیماری کا کوئی علاج نہ تھا ۔بس ٹوٹکوں سے ہی کام لیا جاتا تھا ۔کوئ کسی کی خبر گیری کو نہیں جاتا تھا ۔مبادہ وہ بھی بیمار نہ ہو جائے ۔کیونکہ یہ عام طور پر مشہور تھا ۔کہ یہ چھوت کی بیماری ہے۔ اور ایک کو دوسرے سے لگ جاتی ہے ۔دو ماہ میں قریب ڈیڑھ سو کے لگ بھگ جانیں اس بیماری کی نذر ہو گئیں ۔اس سال یہ وبا بہت سخت تھی ۔جو بھی اس وبا کی زد میں آیا چل بسا ۔اکثر گھروں میں تو ایک دوسرے کو پانی دینے والا بھی کوئی نہ تھا ۔مئی کے مہینہ میں جب گرمی پڑنی شروع ہوئی تو اس وبا کا زور کچھ کم ہوا۔ اگلے سال پھر انہی مہینوں میں یعنی فروری مارچ میں حافظ آباد میں یہ وبا ظاہر ہوئی ۔اور بےشمار جانیں پھر اس کی نذر ہو گئیں ۔اس وبا کے نمودار ہونے کی بڑی علامت یہ تھی ۔کہ گھروں سے بے شمار چوہے نکلتے تھے ۔اور گھروں سے باہر آکر مر جاتے تھے ۔ اور عام طور پر وہ چوہے کئی کئی دن گلیوں میں مرے پڑے رہتے تھے ۔حکیموں ویدوں اور ڈاکٹروں کے پاس ابھی تک اس بیماری کا توڑ نہیں آیا تھا ۔عام طور پر مریض کو تریوڑ یعنی دودھ گھی ملا کر پلاتے تھے ۔اور گلٹی پر سنیک لگاتے تھے ۔یا کوئی مرہم وغیرہ لگا دیتے تھے ۔جو کوئی بیمار ہوتا تھا تو یہ اس کی قسمت ہی ہوتی تھی ۔کہ وہ مقدر سے بچ جائے ۔ورنہ کوئی شاذونادر ہی بچتا تھا ۔حافظ آباد کمیٹی کے ملازم روزانہ بعد دوپہر چوہے پکڑنے کے پنجرے عام گھروں میں دے جاتے تھے ۔اور دوسرے دن چوہوں سے بھرے پنجرے اپنے ساتھ لے جاتے تھے ۔ اور ان کی دمیں کاٹ کر یا تو ڈھاب میں ڈبو دیتے تھے ۔یا پھر مٹی کا تیل ڈال کر ان کو جلا دیتے تھے ۔ کیونکہ اس وقت ڈاکٹروں کا کہنا تھا ۔اور خیال تھا ۔کہ اس موذی مرض کا سبب چوہے ہیں ۔تیسرے سال پھر انہی مہینوں ( فروری مارچ) اس وبا کا حافظ آباد پر حملہ ہوا۔ لیکن پہلے سالوں کی نسبت اب زور کم تھا ۔کچھ تو لوگوں کے دل میں اس کا خوف کم ہو گیا تھا ۔اور اب کچھ مریض بھی بچنا شروع ہو گئے تھے ۔اگر چہ جو مریض بچے تھے ۔ان کا کوئی نہ کوئی جسمانی اعضاء ناکارہ ہو گیا تھا ۔کسی کی ایک آنکھ جاتی رہی تھی ۔کسی کا ہاتھ ناکارہ ہوگیا ۔اور کسی کی ٹانگ کمزور ہو گئی تھی ۔یہ گزرے تین سال حافظ آباد والوں کے لئے سخت آزمائش کے تھے ۔قریبی خون کے رشتہ دار بیماروں کو چھوڑ کر بھاگ جاتے تھے ۔کہ یہ منحوس بیماری کہیں ان کو نہ لگ جائے ۔اور کسی طرح سے ان کی جان بچ جانے ۔عجیب افراتفری کا عالم تھا ۔ کئی بیماروں کو گلٹی نہیں نکلتی تھی ۔صرف بخار ہوتا ۔منہ سے خون آتا۔اور مریض اتنے ہی میں دم توڑ دیتا تھا ۔بعد میں معلوم ہوا۔کہ یہ بیماری دو قسم کی ہوتی ہے ۔ایک بیوبانک ( گلٹی والی) اور دوسری نیمونک ( نمونیا والی)موخر الذکر والی پلیگ کا شکار کوئی ایک آدھا ہی مریض بچتا تھا ۔کیونکہ وہ بڑی مہلک قسم کی بیماری تھی ۔تیسرے سال جب اس وبا کا حملہ ہوا ۔تو بہت کم لوگ شہر سے باہر گئے ۔کیونکہ وہ وہ وبا کے پہلے سالوں میں اس وبا کے ڈر کی وجہ سے نکل کر بری طرح سے ذلیل ہو چکے تھے ۔اور بہت سے لوگ اور خاندان شہر سے باہر نکل کر بھی موت کا شکار ہو گئے تھے ۔اس لئے اب تقریباً حافظ آباد کے ہر خاص و عام کے دلوں میں یہ خیال جاگزیں ہو گیا تھا ۔کہ موت تو ہر جگہ پر آنی ہی ہے ۔اس لئے اگر مرنا ہی ہے ۔تو اپنے گھروں ہی میں کیوں نہ مرا جائے ۔اس وبا کے دوران حافظ آباد کے لوگوں میں کچھ صفائی کا خیال بھی زیادہ ہو گیا تھا ۔عام لوگوں کے استعمال کا سامان چار پائیاں اور بستر وغیرہ دھوپ میں پڑے رہتے تھے ۔اب خوف وہراس بھی کم ہوگیا تھا ۔لوگوں نے سکھ کا سانس لیا ۔یہ وبا عموماً فروری مارچ کے مہینوں ہی میں نمدار ہوتی تھی ۔اور جوں جوں موسم گرم ہوتا جاتا تھا ۔تو اس وبا کی شدت ختم ہو جاتی تھی ۔ کئی حکماء ویدوں اور ڈاکٹروں نے اس وبا سے متاثر مریضوں کے لیے ادویات ایجاد کیں۔چنانچہ وید بھوشن پنڈت ٹھاکر دت شرما وئید لاہور کی امرت دھارا نامی دوائی بھی انہیں دنوں کی ایجاد ہے ۔ یہ امرت دھارا نامی دوائی مریضوں کے لئے اکسیر کا کام دیتی تھی ۔اور پورے ہندوستان میں اس دوا کی مشہوری ہو گئی تھی ۔اور اس دوا کے موجد وئید پنڈت ٹھاکر دت شرما بھی بہت مشہور ہو گئے ۔اور انہوں نے اس دوا کی بدولت بےشمار روپیہ کمایا ۔اس وقت کے انگریز حکمران بھی اپنے عوام کی حالت سے غافل نہ تھے۔ وہ اپنے شہریوں کی صحت کی بحالی کے لئے ہر ممکن کوشش کر رہے تھے ۔1903 ء مسٹر ڈاکٹر بھروچہ ( جو پارسی تھے) پلیگ ڈیوٹی پر حافظ آباد تعنیات ہوئے ۔ان کی رہائش تحصیل میں واقع ایک کوارٹر میں تھی۔وہ عام مریضوں کا بہت خیال رکھتے تھے ۔وہ صبح و شام لوگوں کو پلیگ کا ٹیکہ لگاتے تھے ۔صبح کے وقت وہ مشرقی دروازے کے پاس بازار میں کرسی میز لگاتے تھے ۔اور شام کو مین بازار کے وسط میں میز کرسی لگاتے اور عام مریضوں کو چیک کرتے ۔اور ان کو دوائی دیتے ۔اور ٹیکے لگاتے تھے ۔شروع شروع میں عام لوگ ٹیکا لگوانے سے خوفزدہ ہوتے تھے ۔وہ جب ڈاکٹر صاحب کو بازار میں بیٹھا دیکھتے تھے ۔تو دوسری طرف نکل جاتے تھے ۔لیکن ڈاکٹر بھروچہ بہت خلیق حلیم اور شریں کلام تھے ۔اس لئے حافظ آباد کے عوام جلد ہی ان کے گرویدہ ہو گئے ۔اور ان سے ہنسی خوشی ٹیکے لگوانے لگ گئے ۔اس کے بعد کبھی پلیگ یا طاعون نامی اس وبا نے حافظ آباد کا رخ نہ کیا ۔اور یہاں پر اللہ کا خصوصی کرم ہو گیا ۔ڈاکٹر بھروچہ حافظ آباد میں بہت مقبول ہو گئے تھے ۔وہ کوئی ڈیڑھ دو سال حافظ آباد میں قیام پذیر رہے ۔اور پھر یہاں سے وہ واپس لاہور چلے گئے ۔

Site Admin

MBBS MD

Share This :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Need Help?