حافظ آباد کی تاریخ کے گمشدہ اوراق
لالہ دینا ناتھ پاسی حافظ آبادی خطہ حافظ آباد کو یہ شرف حاصل ہے تقسیم سے قبل کے ہندوستان کے دو ممتاز صحافیوں (سردار دیوان سنگھ مفتوں اور لالہ دینا ناتھ پاسی) کا تعلق حافظ آباد سے تھا ۔ لالہ دینا ناتھ پاسی ایک آذاد منش بے باک صحافی اور بیسیوں کتابوں کے مصنف تھے ۔وہ 1878 ء کو حافظ آباد میں پیدا ہوئے ۔ ابتدائی تعلیم حافظ آباد میں حاصل کرنے کے بعد مشن سکول گوجرانوالہ سے انٹرمیڈیٹ کا امتحان پاس کرنے کے بعد پیسہ اخبار لاہور کے دفتر میں ملازمت اختیار کر لی ۔آپ بہت ذہین اور محنتی تھے ۔اس لئے بہت جلد مولوی محبوب عالم ایڈیٹر ومالک پیسہ اخبار کے منظور نظر ہو گئے ۔انگریزی سے اردو ترجمہ کرنے میں انہیں کمال حاصل تھا ۔ان دنوں پیسہ اخبار کے ساتھ ایک رسالہ انتخاب لاجواب نکلا کرتا تھا ۔جو بہت مقبول تھا۔اس رسالہ میں دنیا بھر کے واقعات کا ذکر ہوتا تھا ۔اس رسالہ کے روح رواں دینا ناتھ تھے ۔انہوں نے تقریباً چار درجن انگریزی ناولوں اور کتب کے ترجمے اپنے طور پر کر ڈالے۔اور ان کتابوں کی چھپائی کے لئے 1901 ء لاہور سوتر منڈی کے علاقے میں حافظ آبادی پریس کے نام سے اپنا ذاتی پریس لگایا ۔اس پریس کے منیجر ان کے چھوٹے بھائی لالہ ایشر داس تھے ۔1904 ء میں انہوں نے پیسہ اخبار کی ملازمت چھوڑ کر اپنا مشہور زمانہ ہفتہ وار اخبار ہندوستان جاری کیا ۔اس وقت پنجاب میں کوئی پولٹیکل اردو اخبار نہیں تھا ۔اس لئے ہفتہ وار ہندوستان ترقی کے میدان میں سرپٹ دوڑتا چلا گیا ۔اور اس کو وہ عروج حاصل ہوا ۔جو اس سے پہلے کسی اور اخبار کو حاصل نہ تھا اس دوران ہی میں انہوں نے اپنا سٹیم پریس بھی لگا لیا۔1914 ء میں آپ نے روزنامہ دیش جاری کیا ۔اور ہمالہ نام کا ماہانہ رسالہ بھی نکالا ۔آپ کو پنجاب کا فادر آف اردو جرنلزم کہا جاتا تھا ۔ان کی وجہ سے حافظ آباد کا نام بہت مشہور ہو گیا تھا ۔کیونکہ وہ اپنے نام کے ساتھ دینا ناتھ حافظ آبادی لکھتے تھے ۔آپ بہت سلجھے ہوئے جرنلسٹ تھے ۔ طبیعت مذاق پسند تھی۔اس وقت انگلستان کا بھی چکر لگا آے تھے ۔صحافت کے میدان میں ان کا مقابلہ پیسہ اخبار کے ساتھ تھا ۔اور اس وقت پیسہ اخبار ہندوستان کے اردو اخبارات میں سب سے زیادہ اشاعت کا دعویدار تھا ۔اس وقت ان کا اخبار ہندوستان بھی اپنی ترقی کے عروج پر تھا ۔اور پھر انہوں نے اپنے اخبار ہندوستان میں لکھا ۔کہ اخبار ہندوستان کی اشاعت اور فروخت پیسہ اخبار سے زیادہ ہے ۔اور اگر پیسہ اخبار کی اشاعت زیادہ ہے ۔تو وہ اپنی تعداد بتاے ۔اور تعداد اشاعت اپنے اخبار کے اوپر لکھے ۔اور اگر پیسہ اخبار نے اپنی تعداد اشاعت نہ لکھی۔ تو وہ جھوٹا تصور ہو گا۔ اور اس کو یہ لکھنا ختم کرنا ہوگا ۔کہ ہندوستان کا اردو میں شائع ہونے والا سب سے بڑا اخبار پیسہ اخبار ہے۔ یہ بحث کچھ عرصہ چلتی رہی ۔اور پیسہ اخبار کی پیشانی پر مزکورہ بالا عبارت بدستور چھپتی رہی۔اور پیسہ اخبار نے اپنی تعداد اشاعت کبھی بھی نہ لکھی ۔پیسہ اخبار کے مالک مولوی محبوب عالم صاحب کو اس بات کا بڑا غصہ اور رنج تھا ۔کہ ان کا ایک سابق ملازم اب ان کو اپنے ساتھ مقابلہ کے لئے للکارتا ہے ۔چنانچہ انہوں نے ایک جھوٹے مقدمے میں لالہ دینا ناتھ کو پولیس کے ساتھ ملی بھگت کرکے پھنسا دیا ۔مقدمہ چلا ۔نامی گرامی وکیل اور بیرسٹر ان کی طرف سے پیش ہوئے ۔مگر ان کو سزائے قید ہو گئی ۔ان کی قید کے دوران میں اخبار چوہدری رام بھجدت مشہور آریہ سماجی لیڈر نے لے لیا ۔لیکن اس کی اشاعت دن بدن گرتی چلی گئی ۔اور ان کی رہائی تک اخبار کی اشاعت میں نمایاں کمی آ چکی تھی ۔ان کے اور چوہدری رام بھجدت کے درمیان ایک معاہدہ طے پایا ۔کہ اخبار کا انتظام دینا ناتھ حافظ آبادی کے پاس ہو گا۔اور منافع برابری میں ہوگا۔اخبار کی اشاعت پھر بڑھنا شروع ہو گئی ۔مگر فریقین میں اختلاف پیدا ہوگیا ۔اور پھر 1914 ء کو لالہ دینا ناتھ نے روزنامہ دیش جاری کیا ۔یہ اخبار بھی بہت کامیاب ہوا ۔ان کے صاحب زادے مسٹر دیس راج جی اخباری ٹریننگ اور فوٹوگرافی کی ٹریننگ کے لئے انگلستان گئے ہوئے تھے ۔واپس آگئے ۔اس دوران لالہ دینا ناتھ دہلی چلے گئے ۔اور وہاں سے ہفتہ وار باتصویر ایک اخبار نکالا ۔مگر وہ کامیاب نہ ہوا۔اور آپ پھر لاہور واپس آ گئے ۔اور لاہور ہی میں آپ نے وفات پائی ۔
عزیز علی شیخ