میری یادیں میری باتیں انسانیت
کولو تارڑ حافظ آباد کا نواحی اور مشہور گاؤں ہے ۔حافظآباد کی سیاست میں ہر دور میں اس گاؤں کا بہت کردار رہا ہے ۔تقسیم ہندوستان سے قبل اس گاؤں کے میاں عطا اللہ تارڑ اس وقت ایک نمایاں سیاسی حیثیت کے حامل فرد تھے ۔ان کے بیٹے میاں سیف اللہ تارڑ بھی سیاسی طور پر کافی متحرک رہے تھے ۔اور پھر چوہدری افضل حسین تارڑ نے اپنے اس گاؤں کو اپنی سیاسی سرگرمیوں کی وجہ سے جہاں ضلع حافظ آباد کی سیاست کا مرکز بنا دیا ۔وہاں کولو تارڑ کا نام پورے پاکستان میں مشہور ہو گیا ۔ کولو تارڑ گاؤں کی غالب قوم جٹ تارڑ ہے ۔مگر یہاں کے شیخ بھی کاروباری طور پر بہت مشہور اور کامیاب تجار تھے ۔کولو تارڑ کے شیخوں نے ( جن میں چاولہ کھر بندہ لاکھڑا لوٹھڑا وغیرہ شامل تھے) تقسیم سے قبل کے ہندوستان میں کلکتہ پٹنہ مھترا شہروں میں چمڑے کی تجارت میں کاروباری طور پر بڑا مقام حاصل کر لیا تھا ۔اور خوب مال و زر میں کھیلتے تھے ۔تقسیم کے فوری بعد برانڈرتھ روڈ لاہور( جو کہ اس وقت مشنیری اور پٹے کی تجارت کا مرکز تھا ۔اور برانڈرتھ روڈ کے اکثریتی تاجر ہندو تھے) اور ان ہندو تجار کی بھارت منتقلی کے بعد برانڈرتھ روڈ کی تجارت اکثریتی طور پر کولو کے شیخوں کے پاس آ گئی تھی ۔ کولو تارڑ سے تعلق رکھنے والے ایک شخص جس کا نام غلام محی الدین چاولہ تھا ۔ وہ اپنی جوانی کے عالم ہی میں تجارت کے سلسلے میں کلکتہ چلا گیا تھا ۔اور وہاں اس نے چمڑے کی تجارت میں بہت روپیہ کمایا تھا ۔ شیخ غلام محی الدین حافظ آباد میں میونسپل کمشنر بھی رہا تھا ۔اور شیخ غلام محی الدین اور اس کے خاندان نے حیات پہلوان کشمیری کے کہنے پر کالیکی منڈی میں تقسیم سے قبل ہندوؤں اور سکھ تاجروں کے مقابلے پراپنے ذاتی خرچ سے مسلم تجارتی منڈی قائم کی تھی ۔جو کہ اپنے مسلمانوں ہی نے کامیاب نہ ہونے دی تھی ۔اور ان کو مالی طور پر کافی نقصان ہوا تھا ۔شیخ غلام محی الدین کے چار بیٹے تھے ۔ محمد امین محمد شریف محمد صدیق اور مسعود تھے ۔تقسیم کے فوری بعد یہ لوگ لاہور منتقل ہوگئے تھے ۔شیخ غلام محی الدین کی اولاد لاہور میں بھی تجارت کے میدان میں کامیاب ہو گئی ۔ اور لاہور کے بڑے تاجروں میں ان کا شمار ہونے لگا ۔شیخ غلام محی الدین کی اولاد میں شیخ محمد امین جن کو میاں محمد امین کہا جاتا تھا ۔وہ ایک نمایاں فرد تھے ۔اور وہ کبھی بھی اپنے پیدائشی خطہ حافظ آباد کو نہ بھول پائے تھے ۔ساٹھ کی دہائی کے شروع میں انہوں نے ڈیوس روڈ لاہور پر ایمبیسیڈر ہوٹل کے نام سے اس وقت کا ایک عظیم الشان ہوٹل تعمیر کیا ۔مال روڈ لاہور ہی پر اپنے وقت کا مشہور اور بڑا انٹرنیشنل ہوٹل اور کراچی میں امپیریل ہوٹل بھی ان کے خاندان ہی کی ملکیت تھے ۔میاں محمد امین کا زیادہ تر قیام ایمبیسیڈر ہوٹل ہی میں ہوتا تھا ۔ اور کولو تارڑ اور حافظ آباد سے آنے والے امیر غریب سب ان کے ہاں قیام پذیر ہوتے تھے ۔اور میاں صاحب ان سب کی دل وجان سے خدمت کرتے تھے ۔میرے محترم دوست گل پرویز تارڑ نے مجھے بتایا ۔کہ ان کے بڑے بھائی محمد فاروق بیمار تھے ۔اور ان کے پاس لمبا عرصہ رہنے کے لئے لاہور میں کوئی ٹھکانہ نہ تھا ۔ایسے میں جب میاں محمد امین کو علم ہوا ۔کہ فاروق بیمار ہے۔ تو وہ فورآ ان کو اپنے پاس لے آے۔ اور پھر وہ مہنیوں ایمبیسیڈر ہوٹل مقیم رہے ۔یاد رہے ۔گل پرویز تارڑ کے والد محترم چوہدری عبد الطیف تارڑ میاں محمد امین کے قریبی دوست تھے ۔گل پرویز نے بتایا ۔کہ میاں صاحب نے ان کے ساتھ سگی اولاد جیسا سلوک کیا ۔یہ تمام بات سناتے ہوئے گل پرویز کی آنکھوں میں نمی اتر آئی تھی ۔ سالوں پہلے کا ذکر ہے ۔صبح کے وقت میں نے اپنی لیب کھولی۔اس وقت میری لیب کا ایک دروازا ملحقہ گلی میں تھا ۔اور لیب کا مرکزی دروازا ڈاکخانہ روڈ پر واقع تھا ۔میں لیب میں گلی والے دروازے کے سامنے اپنی کرسی پر بیٹھا ہوا تھا ۔اور میری نگاہ گلی کی طرف تھی ۔کہ اتنے میں ایک سائیکل سوار جس کی سائیکل کے پچھلے کیریئر پر ایک خاتون بیٹھی تھی ۔میری لیب کے گلی والے دروازے کے سامنے آکر رکا۔اس نے اپنی سائیکل لیب کے دروازے کے سامنے کھڑی کی ۔اور وہ مرد اور خاتون میری لیب کے اندر آ گئے ۔ میں نے ان سے پوچھا ۔کیا کام ہے ۔ خاتون کہنے لگی۔ میں نے چھاتی کا ایکسرے کروانا ہے ۔میں نے خاتون کا نام پوچھا ۔اور اسے ایکسرے کی فیس جو شاید اس وقت پچاس روپے تھی۔ بتائی ۔ میرے ایکسرے فیس بتانے پر وہ خاتون یک دم چپ کر گئی ۔اور اپنے ساتھی مرد جو کہ اس کا خاوند تھا ۔کی طرف سوالیہ نظروں سے دیکھنے لگی۔وہ ادھیڑ عمر آدمی تو کچھ نہ بولا۔اور میرے استفسار پر وہ خاتون کہنے لگی۔کہ ہمارے پاس تو کل بیس روپے ہیں ۔اور وہ تو سول ہسپتال ایکسرے کروانے آے تھے مگر سول ہسپتال کی ایکسرے مشین خراب ہے اور انہوں نے کہا ہے کہ پرائیویٹ ایکسرے کرا لو ۔اور اس وقت سول ہسپتال میں ایکسرے کی سرکاری فیس شاید تیرہ روپے تھی ۔اور ان کے پاس ادھر سے ایکسرے کروانے کے لئے پیسے نہیں ہیں ۔اور اس نے مزید کہا ۔کہ وہ بہت ہی غریب لوگ ہیں ۔اور یہ میرا بندہ ( جو کہ مدقوق سا تھا اور اس کا خاوند تھا) محنت مزدوری کرتا ہے ۔ میں چپ نہ رہ سکا۔اور ان سے سوال کیا ۔کہ آپ لوگ کہاں سے آئے ہیں ۔وہ مرد چپ رہا ۔اور اس خاتون نے کہا ۔کہ ان کا تعلق کولو تارڑ سے ہے ۔اور محنت کش ہیں ۔اور اپنی غربت کی وجہ سے ہی اپنی سائیکل پر کولو سے شہر آے ہیں۔ اور یوں انہوں نے بس کے کرایہ کی بھی بچت کی ہے ۔خیر میں نے اس خاتون کا ایکسرے کیا ۔اور پھر اپنے فطری تجسس سے مجبور ہو کر ان کو کریدنے لگا ۔میں نے ان سے کہا ۔کہ ان کے گاؤں کولو تارڑ میں تو بڑے بڑے زمیندار ہیں ۔اور مزید یہ کہ کولو کے شیخ بھی تو بڑے امیر اور رئیس ہیں ۔کیا وہ لوگ آپ کی کوئی مدد نہیں کرتے ہیں ۔میرے ہمدردانہ لہجے سے اس خاتون کی آنکھوں میں آنسو آگئے ۔اور وہ کہنے لگی ۔کہ غریبوں کو بھلا کون پوچھتا ہے ۔ہمارے کولو کے بڑے زمینداروں کو ہم سے کوئی غرض نہ ہے۔وہ بڑے چوہدری لوگ ہیں ۔اور ہم کمی لوگ ہیں ۔ہاں ۔کولو کے پرانے لوگوں میں سے جو ہم غریبوں کے سر پر اپنا شفقت بھرا ہاتھ رکھتا تھا ۔اب اس دنیا سے چلا گیا ہوا ہے ۔میں نے اس شخص کا نام پوچھا ۔تو وہ خاتون کہنے لگی۔ کہ میاں جی محمد امین جن کا ایمبیسیڈر ہوٹل تھا ۔کیا آپ نے ان کا نام سنا ہے ۔میں نے کہا ۔ہاں میں نے ان کا نام سنا ہوا ہے۔ اور وہ بہت امیر اور بڑے لوگ ہیں ۔اس خاتون نے کہا ۔میاں جی ہم کولو والے غریبوں کے مائ باپ تھے ۔ وہ پیچھے سے کولو کے تھے۔مگر وہ کبھی بھی کولو اس کی سرزمین اور باسیوں کو نہیں بھولے تھے ۔وہ اربوں پتی لوگ تھے ۔بڑی فیکٹریوں اور زمینوں کے مالک تھے ۔ جب ہم لوگ لاہور جاتے ۔تو میں سیدھا میاں جی کی کوٹھی جو کہ بہت بڑی تھی ۔چلی جاتی تھی ۔اور مہنیوں کے حساب سے وہاں رہتی تھی ۔بی بی جی ( میاں محمد امین کی بیوی) کا میرے ساتھ بہت پیار تھا ۔اور میں ان کے گھر کام کرتی تھی اور ان کی خوب خدمت کرتی تھی ۔اور میرا میاں اس نے اپنے خاوند کی طرف اشارہ کیا ۔میاں جی کی خدمت کرتا تھا ۔ یہ دن رات میاں جی کے پاس ہوٹل رہتا۔ اور میاں جی کا بھی اس کے ساتھ بہت پیار تھا ۔اور جب ہم لوگ لاہور سے کولو واپس آتے ۔تو ہمارے پاس سالوں کا رزق ہوتا تھا ۔بی بی جی ہمیں اتنا کچھ دے دیتی تھیں ۔کہ ہمیں کوئی تھوڑ نہیں رہتی تھی ۔ان کے دل بہت بڑے تھے ۔جب سے میاں جی اس دنیا سے رخصت ہوئے ہیں ۔لاہور کا دروازا ہی ہم پر بند ہو گیا ہے ۔اور میاں جی کی اولاد آپس میں لڑ پڑی ہے ۔اور ادھر اب ہم کو کوئی نہیں پوچھتا ہے ۔یہ تمام باتیں سناتے ہوئے وہ خاتون اور اس کا خاوند دونوں زاروقطار رو رہے تھے ۔اور میں سوچ رہا تھا ۔کہ اس دنیا میں کیسے کسیے وضع دار اور اپنی اصل کا خیال رکھنے والے عظیم لوگ تھے ۔اتنے بڑے سرمایہ دار جن کا کبھی پاکستان کے چند امیر ترین خاندانوں میں شمار تھا ۔اپنی اصل کو نہ بھلا پائے تھے ۔اور آج کے نو دولتیے اور وہ لوگ جو تھوڑا سا منصب ملتے ہی اپنے قریبی عزیزوں کو بھی نظر انداز کر دیتے ہیں ۔ اور تکبر میں آ جاتے ہیں ۔
عزیز علی شیخ