نوعمری کی کچھ یادیں اور باتیں
جوں جوں وقت گزرتا جا رہا ہے اسی حساب سے میرے گزرے وقت کی یادیں مجھے کچھ لکھنے پر مجبور کر دیتی ہیں اور ویسے بھی میں آج کل اپنی نئی کتاب میری یادیں میری باتیں پر کام کر رہا ہوں ۔ اکثر اوقات میں اکیلا بیٹھا ہوا ہوتا ہوں ۔ تو اپنی گزری زندگی کے واقعات اور لمحات کو یاد کر کے بے اختیار مسکرا دیتا ہوں ۔ ستر کے عشرے کی بات ہے ۔ ہم دوستوں کا ایک گروپ ہوتا تھا ۔ اس گروپ میں میاں عبدالرشید بابر خان شیخ جاوید شاہد اقبال بلو رندھاوا میں محمود اختر زیدی محمد رفیع چشتی اکرم بابی مولانا محمد یونس شامل تھے ۔ اور ہم ہر وقت نت نئی شرارتیں سوچا کرتے تھے ۔
ہمارے چوک فاروق اعظم میں ایک صاحب ڈرائ فروٹ کی ریڑھی لگایا کرتے تھے ۔ ان کا نام رفیق تھا اور سب ان کو استاد پھیکی یا پاء پھیکی کہہ کر پکارتے تھے ۔ وہ بڑے ملنسار اور ہنس مکھ انسان تھے ۔ ان کی ریڑھی خشک میوہ جات سے بھری ہوتی تھی ۔ بڑے چھابوں میں چلغوزے مکس میوہ جات (جس کو کھچڑی کہا جاتا تھا) خستہ گرما گرم بھنی ہوئی مونگ پھلی اخروٹ مزیدار کڑک دار ریوڑیاں پستہ خشک خوبانیاں اور ٹانگری رکھی ہوتی تھیں ۔ ہمارے پورے علاقے میں ان کی خشک میوہ جات کی ریڑھی بہت مشہور تھی ۔ اور سردیوں کی لمبی راتوں میں ان کا دھندہ خوب چلتا تھا ۔ اور وہ رات گئے دیر تک چوک فاروق اعظم میں موجود رہتے تھے ۔ انہوں نے روشنی کے لئے مٹی کے تیل کا ایک لمبی شیشے کی چمنی والا لیمپ رکھا ہوا تھا ۔ اور وہ وقفہ وقفہ سے بھنی گرما گرم مونگ پھلی کی آواز بھی لگایا کرتے تھے ۔ ان کا یہ روزانہ کا معمول تھا ۔ ہم دوست چونکہ رات گئے تک چوک ہی رہتے تھے ۔ اس لئے ان کی ریڑھی ہماری نظروں میں ہوتی تھی ۔ اور ہمارے پاس جو کچھ نقدی یا سکے ہوتے تھے ۔ وہ ہم سب دوست ملا کر چاچا سلیمان کریانے والے سے سگریٹ اور چاچا صدیق حلوائی سے چاندی کے ورق والی مزیدار خالص کھوے والی برفی لے آتے تھے ۔ اور کچھ پیسے استاد پھیکی کی نذر بھی کر دیتے تھے ۔ اور جتنے پیسوں کی ہم اس سے اشیاء خریدتے تھے ۔ اس سے زیادہ اس کے چھابوں پر ہم ہاتھ چلا جاتے تھے ۔ مگر آفرین استاد پھیکی پر بھی اس نے کبھی ہم لوگوں کے چلتے ہاتھ نہ روکے تھے ۔ بس کبھی جب اس کا موڈ آف ہوتا تھا ۔ تو جب ہم لوگ کچھ زیادہ ہی مفت خوری کرتے ۔ وہ گھور کر ہماری طرف دیکھتا ۔ اور ہم اس کے گھورنے کا مطلب سمجھ کر ادھر ادھر ہو جاتے تھے ۔
استاد پھیکی نے آدھی رات کے لگ بھگ اپنا دھندہ سمیٹنا ہوتا تھا ۔اور اس نے اپنی ریڑھی کو رکھنے کے لئے چوک میں ایک دوکان کرایہ پر لے رکھی تھی ۔ اور اس وقت رات گئے اپنی بھاری ریڑھی کو دوکان میں کھڑا کرنے کے لئے چار پانچ افراد کی ضرورت ہوتی تھی ۔ اور اس کی اس دوران مدد کے لئے ہم دوست اس کے آس پاس موجود ہوتے تھے ۔ اس وقت موجودہ جماعت خانے کا تھڑا یا سیٹھ محمد سلیمان کی کباڑ کی دوکان ہم دوستوں کا ٹھکانہ ہوتی تھی ۔ تو وہ چوک میں اپنی ریڑھی کے پاس کھڑے ہو کر اونچی آواز سے کہتا۔ بلو ٹویا ایل بی مودی کدو بلو گپی بابر کھوتا رفیع پینٹر سب حاضر ہو جائیں ۔ ہم اس کی آواز پر فوری اس کے پاس پہنچ جاتے تھے ۔ اور ہم اس پر یوں ظاہر کرتے تھے ۔ جیسے ہم اس کی بے لوث مدد کر رہے ہیں ۔ حالانکہ ہم کو اپنا لالچ ہوتا تھا ۔ کیونکہ ہم لوگوں نے اس کی ریڑھی دوکان میں کھڑے کرنے کے دوران اپنے لنڈے کے اور کوٹوں کی جیبیں چلغوزوں مونگ پھلی ریوڑیوں اور خاص کر میں نے کھچڑی سے بھر لیا کرنی ہوتی تھیں ۔ اور پھر مزے سے ہم دوستوں نے یہ اشیاء ہڑپ کر جانی ۔ ہمارا ہر شب کا یہ معمول تھا ۔ ایک رات کو ریڑھی کھڑے کرتے ہوئے میں استاد پھیکی کے ساتھ دوکان کے باہر کھڑا تھا ۔ اور مودی بلو رندھاوا جاوید اور رفیع ریڑھی دوکان کے اندر کھڑی کر رہے تھے ۔ کہ ایک دم ایسے لگا ۔ کہ دوکان کے اندر کوئی چیز گری ہے ۔ استاد پھیکی جلدی سے دوکان کے اندر داخل ہوا ۔ تو اس نے دیکھا کہ خوبانیاں والا چھابا زمین پر گرا ہوا تھا ۔ اور مودی زمین پر گری خوبانیوں کو اٹھانے کی کوشش کر رہا تھا ۔ استاد پھیکی کو دیکھ کر بلو رندھاوا جاوید اور رفیع جلدی سے دوکان سے باہر آگئے ۔ اور ہم چاروں وہاں سے غائب ہو گئے ۔ کیونکہ استاد پھیکی کو شک ہو گیا تھا ۔ کہ لڑکے مجھ سے کوئی چالاکی کرتے ہیں ۔ اور اس نے اچانک ہی مودی کے کوٹ کی جیبوں کی تلاشی لی تو اس کا مال مسروقہ جو کہ چلغوزوں اور ریوڑیوں کی شکل میں تھا ۔ مودی کی جیبوں سے برآمد ہوگیا ۔ تو یہ سب کچھ دیکھ کر استاد پھیکی کہنے لگا۔ اچھا ۔ تو اس لئے میری پوری نہیں پڑ رہی تھی ۔ میں بھی کہوں ۔ کہ جتنا میرا مال لگتا ہے ۔ تو میری اتنی بکری نہیں ہے ۔ تو پھر مودی کی بھاں بھاں تھی ۔ اور استاد پھیکی کی گالیاں ۔ دو چار دن ایسے گزرے ۔ اور ڈرتے ڈرتے ہم استاد پھیکی کی ریڑھی سے دور ہو کر گزرتے ۔ ایک رات ہم جماعت خانے کے تھڑے پر بیٹھے ہوئے تھے ۔ کہ استاد پھیکی ہمارے پاس آ گیا ۔ اور کہنے لگا ۔ منڈیو۔ کیا ہوا ہے ۔ مجھ سے ناراض ہو ۔ ؟ مجھے تم لوگوں کی ساری حرکتوں کا علم تھا ۔ مگر مجھے کوئی فرق نہیں پڑتا تھا ۔ مگر اس رات جب چھابا زمین پر گرا تھا ۔ تو مجھے غصہ اس بات پر آیا تھا ۔ کہ تم لوگوں سے چوری بھی سلیقہ سے نہیں کی جاتی ۔ اور پھر مودی نے مجھے سب کچھ بتا دیا تھا ۔ تو منڈیو اٹھو ۔ میرے ساتھ چلو ۔ میرا بھی تم لوگوں کے بغیر دل نہیں لگتا ہے ۔ اور تم منڈے تو چوک کی رونق ہو ۔ چلو ۔ ریڑھی رکھو۔ ہم دوستوں نے ایک دوسرے کی طرف دیکھا ۔ اور خاموشی سے اس کے ساتھ چل دیئے ۔ کیسے کیسے لوگ تھے ۔ کہاں چلے گئے ۔
عزیز علی شیخ