حافظ آباد کی تاریخ کے گمشدہ اوراق
تقسیم تک حافظ آباد کے بینک تقسیم تک حافظ آباد کاروباری اور تجارتی طور پر پنجاب میں نمایاں حیثیت رکھتا تھا ۔ اور اپنی چاول کی فصل کے لئے اس وقت کے متحدہ ہندوستان میں مشہور تھا اور پھر اس وقت کے کاروباری طبقہ کی ضرورت کے مطابق حافظ آباد میں سب سے پہلے پیپلز بینک کی برانچ 1907ء میں کھلی تھی ۔ اور اس کا دفتر مین بازار میں شرقی دروازے کے پاس ایک دوکان کی چھت پر تھا ۔ وہ کتابوں کی دوکان تھی اور اس دوکان کے مالک کا نام جو مشہور انقلابی تھے لالہ گجراتی مل تھا ۔ یہ بینک اپنے قیام کے ساتھ ہی بہت اچھا چلنا شروع ہو گیا تھا ۔ اور اس وقت حافظ آباد کی تجارتی ترقی کے لئے اس بینک کا بہت کردار تھا ۔ اس بینک کے حافظ آباد میں سب سے پہلے منیجر مسٹر نوتن داس تھے جو ڈیرہ اسماعیل خان سے تعلق رکھتے تھے ۔ ان کے بعد لالہ رام چند ، مسٹر منوہر لال ٹکو اور رلیا رام چوپڑہ تھے ۔ مؤخر الذکر چوپڑہ صاحب کے دور میں یہ بینک دیوالیہ ہو گیا تھا اور اس وقت حافظ آباد کے ایک بڑے تاجر اور صنعتکار دیوان چندر بھان کا اس بینک میں بھاری سرمایہ جمع تھا اور وہ بینک کے دیوالیہ ہونے کا سنتے ہی صدمہ سے چل بسے تھے ۔اور اس وقت حافظ آباد کے بینک کے دیگر کھاتہ داروں کو بھی بہت نقصان ہوا تھا ۔ اس وقت حافظ آباد کے تاجروں خاص کر دونوں غلہ منڈی کے آڑھتیوں اور بیوپاریوں کو اپنی کاروباری سرگرمیوں کے لئے شہر میں بینک کی بہت ضرورت تھی ۔ کیونکہ بینک ان کے کاروبار کے لئے بہت ضروری تھا ۔ پھر یہاں انڈسٹریل بینک اور ایمپائر بینک کی شاخیں بھی کھلیں ۔ لیکن ایک تو وہ زیادہ قابل اعتماد بینک نہ تھے اور دوسرے حافظ آباد کے لوگ پیپلز بینک کے فلاپ ہونے پر بہت بداعتمادی اور خوف کا شکار تھے کہ ان کا سرمایہ دوبارہ نہ ڈوب جائے ۔ اس لئے انہوں نے ان دونوں بینکوں کے ساتھ کاروبار نہ کیا اور اس طرح ان بینکوں کی شاخیں حافظ آباد میں بند ہوگئیں ۔ اب یہاں کے کاروباری حلقوں کو حافظ آباد میں ایک بڑے تجارتی بینک کی زبردست ضرورت تھی ۔ تو اس وقت حافظ آباد کے چند بڑے تاجر لاہور جا کر رائے بہادر ڈاکٹر مہاراج کرشن کپور سے ملے اور ان سے حافظ آباد میں پنجاب نشینل بینک کی شاخ کھولنے کے لئے مدد اور تعاون کی درخواست کی ۔ یاد رہے اس وقت پنجاب نشینل بینک مالی لحاظ سے بہت مضبوط تھا اور اس کی کاروباری شہرت بہت اچھی تھی ۔ ڈاکٹر صاحب اس وقت اس بینک کے ڈائریکٹر تھے ، اور بعد میں بورڈ آف ڈائریکٹرز کے چیئرمین بھی رہے ۔ 1923ء میں حافظ آباد میں اس بینک کی شاخ کا افتتاح ہوا ۔ بینک سردار ہرنام سنگھ کپور کی عمارت متصل مین بازار نزد شرقی دروازہ ( جہاں ڈاکٹر شیخ عبدالرشید صاحب کا کلینک ہے) میں واقع تھا ۔ بینک کی افتتاحی تقریب میں شہر کے تقریباً تمام تجارتی لوگ آڑھتیاں منڈی اور کارخانوں کے مالکان شریک ہوئے تھے ۔ رائے بہادر ڈاکٹر مہاراج کرشن کپور نے اس بینک کی برانچ کا حافظ آباد میں افتتاح کیا تھا ۔ بھیرہ کے ملک ہیم راج اس بینک کے حافظ آباد میں پہلے منیجر تھے تقسیم تک یہ بینک حافظ آباد کا کامیاب ترین اور بااعتماد بینک تھا ۔ پنجاب نشینل بینک کے علاوہ دیگر بینکوں کی شاخیں بھی حافظ آباد میں کھلیں ۔ جن میں امپیریل بینک ( بعد میں سٹیٹ بینک آف انڈیا) سنٹرل بینک آف انڈیا ، لکشمی کمرشل بینک ، اور بھارت بینک کی شاخیں بھی تقسیم تک ادھر کام کرتی رہیں ۔ علاوہ ازیں یہاں ایک کوپراٹیو بینک بھی تھا ۔ جس کا دفتر مترانوالی بلڈنگ میں تھا ۔ اسے زمیندارہ بینک بھی کہا جاتا تھا ۔ امپیریل بینک کا دفتر موجودہ ڈاکخانہ والی گلی کے بالکل سامنے ایک جدید اور وسیع عمارت میں تھا ۔ اس نو تعمیر شدہ عمارت کے مالک لالہ رلیا رام بھگوان داس تھے ۔ سنٹرل بینک کی شاخ سردار بہادر ڈاکٹر امریک سنگھ کھنہ کی عمارت بلمقابل دفتر میونسپل کمیٹی تھی ( اس عمارت کا ایک دروازہ گلی وکیلاں یا گلی کھنیاں والی متصل مین بازار میں بھی تھا) ، بھارت بینک کی شاخ موجودہ مدرسہ اشرفیہ قرآنیہ پانی پتی کی عمارت واقع ونیکی روڈ پر تھی ۔ لکشمی بینک کی شاخ ڈاکٹر تارا سنگھ ملہوترہ کی دوکانوں ( ونیکی چوک متصل کارخانہ حاجی معراج دین کاشمیری) کے اوپر تھی ۔ تقسیم تک ان تمام بینکوں کا حافظ آباد میں بہت اچھا کام تھا ۔
عزیز علی شیخ