حافظ آباد کی تاریخ کے گمشدہ اوراق شخصیات
مسڑ بلاقی رام (چوپڑہ) شاستری بیرسٹر ایٹ لاء آپ کا تعلق حافظ آباد کے ایک ممتاز اور بڑے زمیندار گھرانے سے تھا ۔ آپ لالہ مولراج چوپڑہ کے سب سے چھوٹے صاحب زادے تھے ۔ حافظ آباد میں ابتدائی تعلیم حاصل کی اور بقیہ تعلیم لاہور میں حاصل کی ۔ اور پھر قانون کی اعلیٰ تعلیم حاصل کرنے کے لئے انگلستان تشریف لے گئے ۔ تعلیم مکمل کرنے کے بعد وطن واپس آ کر ڈیرہ اسماعیل خان میں پریکٹس شروع کی ۔ پھر وکٹوریہ ڈائمنڈ ٹیکنیکل انسٹیٹیوٹ لاہور کے پرنسپل رہے ۔ آپ نے دو شادیاں کی تھیں اور انگلستان میں آپ کی دوسری شادی ایک یورپین خاتون کے ساتھ ہوئی تھی جو کہ وہاں سنسکرت کی تعلیم حاصل کر رہی تھی ۔ ان خاتون کا نام جانکی دیوی چوپڑہ تھا ۔ اور اس خاتون کی بڑی بات اور انفرادیت یہ تھی کہ اس نے شادی کے بعد مکمل طور پر ہندوستانی طرزِ معاشرت اختیار کر لی تھی ۔ آپ صاحب کتب بھی تھے ۔اپ نے کافی عرصہ حافظ آباد میں بھی گزارا ۔اپ کی جدی رہائش گاہ ڈاکخانہ روڈ پر نزد فاروق اعظم روڈ پر تھی اور اس جگہ کو طرف چوپڑاں کہا جاتا تھا ۔ انہوں نے اپنی ایک جدید اور بڑی رہائشی کوٹھی علی پور روڈ اور ونیکی روڈ کے درمیان تعمیر کروائی تھی ۔ اور اس جگہ پر تقسیم تک سمپورن سنگھ کا کارخانہ تھا ۔ جو کہ تقسیم کے بعد سیٹھ فضل یوسف برادران کے پاس تھا ۔ بیرسٹر صاحب نے اپنے حافظ آباد کے قیام کے دوران حافظ آباد میں تجارتی اور صنعتی سرگرمیاں جاری رکھیں ۔ ان کی کوشش تھی کہ حافظ آباد اپنی تجارتی کامیابیوں کے لئے پنجاب بھر میں نمایاں ہو جائے اور یہاں کے عام لوگوں کو بھی روزگار حاصل ہو۔ آپ نے حافظ آباد میں کپڑا بننے کی کھڈیاں ، دوربین کے شیشے تیار کرنے کی مشینیں ، اور دیا سلائی تیار کرنے کا ایک بہت بڑا کارخانہ لگایا تھا ۔ اس کے علاوہ ان کا چاول کا بھی ایک بڑا کارخانہ تھا ۔ غلہ منڈی شرقی جو کہ آپ کے نام سے موسوم تھی ( غلہ منڈی بلاقی رام) آپ نے بنائی تھی ۔ گوجرانوالہ روڈ پر بلمقابل پی ایس او پٹرول پمپ کبھی ایک پیلے رنگ کی کوٹھی ہوتی تھی ۔ جہاں کبھی تقسیم سے عرصہ قبل حافظ آباد کا ٹی بی ہاسپٹل تھا ۔ جو ڈاکٹر دولت رام چوپڑہ صاحب نے قائم کیا تھا ۔ مگر وہ ہاسپٹل کامیاب نہ ہوا تھا ۔ اور پھر وہ جگہ بیرسٹر صاحب نے لے لی تھی ۔ اور آپ وہاں مجسمے بناتے تھے ۔ یاد رہے آپ ایک اعلیٰ درجے کے سنگ تراش بھی تھے ۔ موجودہ آرائیاں والی گلی میں ان کے والد محترم لالہ مولراج کے نام سے ایک مندر تھا ۔ جس کو رادھا کشن کا مندر بھی کہا جاتا تھا ۔ اس کی دیکھ بال ذاتی طور پر خود کرتے تھے ۔ ( اب اس مندر کی جگہ پر جامع مسجد قدس ہے) ۔ اس کے علاوہ حافظ آباد کے گردونواح میں اپنی زمینوں کو بھی دیکھتے رہتے تھے ۔ اس دوران آپ حافظ آباد سے ڈیرہ دون چلے گئے اور وہاں بھی اپنی رہائش کے لئے ایک عظیم الشان کوٹھی تعمیر کروائی ۔ آپ نے وہاں اپنی کاروباری سرگرمیوں کے لئے چائے کے باغات خریدے اور وہاں ڈیرہ دون سے ایک انگریزی ہفتہ وار اخبار کا اجراکیا تھا ۔ ڈیرہ دون ہی میں آپ کی اہلیہ جانکی دیوی کا انتقال ہو گیا اور آپ پھر وہاں سے حافظ آباد واپس آ گئے ۔ شریمتی جانکی دیوی سے آپ کے تین بچے تھے ۔ لڑکی کا نام شکنتلا ، بڑے لڑکے کا نام جنگ بہادر اور چھوٹے کا نام تیغِ بہادر تھا ۔ ان سب بچوں کا رنگ روپ اپنی والدہ پر گورا تھا ۔ بیرسٹر صاحب بالکل سادہ مزاج انسان تھے ۔ گو ماڈرن اور اعلیٰ تعلیم یافتہ تھے ۔مگر ہمیشہ اپنے مقامی لباس کو پسند کرتے تھے ۔سر پر کرسٹی کیپ ( کبھی کبھی بڑی سفید پگڑی بھی) بند گلے کا کوٹ اور تنگ پاجامہ، اور ہاتھ میں چھوٹی سی چھڑی ۔ آپ نشینل پنجاب بنک کے بانیوں میں سے تھے ۔مہاتما نند گوپال چوپڑہ مشہور ہندوستانی سماجی شخصیت انہی کے صاحب زادے تھے ۔ ان کے دوسرے بھائی کا نام رام سروپ تھا ۔جو ان سے چھوٹا تھا اور وہ عالم شباب ہی میں چل بسا تھا ۔ یہ دونوں بھائی ان کی پہلی بیوی میں سے تھے ، یہاں میں کچھ حال مہاتما نند گوپال چوپڑہ کا بیان کرتا ہوں میٹرک کرنے کے بعد کچھ عرصہ وہ اپنے والد صاحب کے کارخانہ میں کارپینٹری کا کام سیکھتے رہے۔ پھر آپ لاہور چلے گئے اور وہاں ہندوستان کو استعمار سے آزادی حاصل کرنے والوں کے ساتھ ان کا اٹھنا بیٹھنا ہو گیا۔ اس دوران میں اصلاح نامی کتاب دو حصوں میں چھپوائی۔ یہ 1908ء کی بات ہے اس کتاب کو اس وقت کی پنجاب حکومت نے قابل اعتراض قرار دے کر ضبط کر لیا اور اس پر پابندی عائد کردی ۔ اس کتاب کی وجہ سے آپ نے طویل عرصہ جیل میں گزارا 1920ء میں خدا دوست نامی روزانہ اخبار لاہور سے جاری کیا۔ بعد میں سوراجیہ اخبار الہ آباد کے ایڈیٹر رہے۔ آپ اپنے بے باک اداریوں اور اخباری تبصروں کی وجہ سے بار بار جیل یاترا کرتے رہتے تھے۔ اور اس وقت اتنی سختیوں کے باوجود آپ کا قلم حق اور سچ لکھتا تھا۔ اور وہ اپنے بے باک قلم سے ہندوستان کی آزادی کے متعلق لکھتے تھے۔ آپ کچھ عرصہ حافظ آباد بھی مقیم رہے اور پھر شادی کے بعد دیال باغ آگرہ چلے گئے۔ وہاں بھی نے آپ نے آپس میں بھائی چارے اور انسانی حقوق کے لئے کام کیا۔ کم گو نہایت شریف اور سادہ مزاج شخص تھے۔ اپنے دوستوں کے پورے ہمدرد اور خیر خواہ تھے۔ اور جس کسی دوست کو ادھار دیا کبھی ان کو واپس نہ ملا تھا۔ مزے کے بات یہ تھی کہ جس کسی نے ان سے مالی فائدہ لیا ہوتا تھا وہ دوبارہ ان کو اپنا نقصان بتا کر رقم لے جاتا تھا۔ غریبوں پر دل کھول کر خرچ کرتے تھے۔ اخباری حلقوں میں بڑی پہچان رکھتے تھے۔
عزیز علی شیخ