The Lost Pages Of Hafizabad’s History

حافظ آباد کی تاریخ کے گمشدہ اوراق
حافظ آباد انگریز عملداری میں 1839 ء کو پنجاب کے سکھ مہاراجہ رنجیت سنگھ نے وفات پائی اور اس کی وفات کے بعد پنجاب میں اس کی قائم کردہ سکھ سلطنت کا زوال شروع ہوگیا اور حکمران خاندان کے افراد اور دیگر نمایاں سکھ سردار آپس کی باہم سازشوں اور لڑائیوں میں الجھ گئے ۔ ان کے اس امر کا یہ نتیجہ نکلا کہ انگریز جو لدھیانہ سے آگے کے پنجاب پر قابض تھے ان کی توجہ ادھر کے پنجاب پر مبذول ہو گئی ۔ اور انہوں نے موقع کا فائدہ اٹھایا اور سکھ فوج کے ساتھ چند ہولناک اور خونریز لڑائیوں کے بعد پورے پنجاب پر مکمل قابض ہو گئے ۔ 1849 ء میں ایک طرح سے سارا پنجاب انگریز عملداری میں آ گیا تھا ۔ اور سکھ سلطنت کی براےنام نشانی بھی انگریزوں نے چند ایک سال بعد ختم کر دی تھی ۔ حافظ آباد بھی اس وقت انگریز عملداری میں آ گیا ۔ اس وقت حالات کی اس تبدیلی کی وجہ سے سکھ دور کے نمایاں کئی سرکردہ خاندان زوال کا شکار ہو گئے اور سکھ دور میں سابق وہ نمایاں خاندان جن کو سکھوں نے مغلوب کیا تھا اور ان خاندانوں نے انگریزوں اور سکھوں کی لڑائی میں کھل کر انگریزوں کا ساتھ دیا اور ان کی ان خدمات کے صلہ میں انگریز حکام نے ان خاندانوں کی سابقہ جاگیروں اور مراعات کو بحال کر دیا بلکہ نئی جاگیریں دیں۔ اور ان چند سرکردہ خاندانوں کے افراد ہی کو جاگیر دار ذیلدار آنریری مجسٹریٹ صوبائی درباری ڈسٹرکٹ درباری رائے بہادر رائے صاحب خان بہادر خان صاحب سردار بہادر سردار صاحب اور دیگر خطابات اعزازات اور مربع جات اراضی دئیے گئے ۔ اس وقت دو آبہ رچنا کا شمالی حصہ جموں سے جھنگ اور راوی سے چناب تک کا سارا علاقہ جس میں اضلاع سیالکوٹ اور گوجرانولہ شامل تھے کا ایک ہی ضلع بنایا گیا اور اس وسیع و عریض ضلع کا عارضی ہیڈکوارٹر پہلے شیخو پورہ میں اور پھر کچھ عرصہ کے لئے وزیر آباد میں رکھا گیا 52 ـ1851 ء میں یہ ناقابل انتظام ضلعی ڈھانچہ ختم کر دیا گیا اور دو علیحدہ ضلع قائم کئے گئے ۔ ایک کا صدر مقام سیالکوٹ اور دوسرے کا گوجرانوالہ تھا ۔ اس وقت ضلع گوجرانوالہ کی حدود دریائے راوی تک پھیلی ہوئی تھی اور اس میں چار تحصیلیں تھیں ۔گوجرانوالہ ، رام نگر ( رسول نگر) حافظ آباد اور شیخو پورہ 1858ء کے عارضی بندوبست میں تحصیل شیخو پورہ کے بہت سے دیہات لاہور کے ساتھ شامل کر دئیے گئے اور ضلع سیالکوٹ کی حدود کے ساتھ بھی تھوڑی بہت تبدیلی کر کے تین تحصیلیں بنا دی گئیں ۔ تحصیل گوجرانوالہ ، تحصیل حافظ آباد اور تحصیل وزیر آباد اس وقت عام زبان میں اس بندوبست کو ونجوں والا بندوبست کہا جاتا تھا کیونکہ اس وقت زمین کی پیمائش بجائے جریب اندازی کے ونجوں یعنی بانسوں کے ذریعہ سے کی جاتی تھی ۔ ضلعوں کی حد بندی کے بعد بہت سا علاقہ جس کا اس وقت رقبہ 8748 ایکڑ تھا ۔ اور جس میں تین رکھیں بھی شامل تھیں 1884ء میں ضلع جھنگ سے نکال دیا گیا اور دریائے چناب کے کورس میں تغیر و تبدل کی وجہ سے برد برآمد کے سبب ضلع گوجرانوالہ کی اضلاع جھنگ اور شاہ پور سے حد براری کی گئی اور مذکورہ بالا رقبہ اس ضلع میں شامل کر دیا گیا ۔ 1892ء میں نہروں کی آبپاشی کے سبب گورنمنٹ کے بار کو آباد کرنے کی وجہ سے پنجاب کے دیگر اضلاع کے زراعت پیشہ لوگوں کو مربع جات اراضی دئیے جانے کے سبب اضلاع لاہور ، منٹگمری اور جھنگ کے ساتھ کچھ تبدیلی کر کے حافظ آباد کی وسیع تحصیل کے دو حصے کر دئیے گئے اور ایک نئی تحصیل جس کا ہیڈکوارٹر خانقاہ ڈوگراں جو کہ بار کے مرکز میں تھا بنایا گیا ۔ واضح رہے کہ اس سے پیشتر شیخو پورہ ، جنڈیالہ شیر خان ، چوہڑ کانہ اور اجنیانوالہ وغیرہ سب تحصیل حافظ آباد میں شامل تھے ۔ اور اس وقت حافظ آباد کی تحصیل وسعت اور رقبہ کے لحاظ سے پنجاب کی تحصیلوں میں سب سے بڑی تھی ۔ چنانچہ نئی تحصیل کے بن جانے کے بعد مذکورہ بالا سب قصبہ جات تحصیل خانقاہ ڈوگراں میں چلے گئے ۔ اس وقت خانقاہ ڈوگراں موضع کے پاس ایک نیا شہر انگریز حکومت نے آباد کیا ۔ یہ ایک جدید شہر تھا ۔ اس میں درمیان میں چوک اور اس کے چاروں اطراف بازار اور پھر بازاروں سے گلیاں نکالی گئی تھیں ۔ اور تحصیل تھانہ ہسپتال کی جدید عمارتیں اس نئی آبادی کے قریب بنائی گئی تھیں ۔ نئی تحصیل کا عمل درآمد غالباً 1893ء میں ہوا۔ اور لالہ پنڈی داس اس وقت کے تحصیلدار حافظ آباد اس نئی تحصیل کے بھی تحصیلدار مقرر ہوئے ۔ پہلے تحصیل خانقاہ ڈوگراں جو ضلع گوجرانوالہ میں شامل تھی۔ شیخو پورہ کے ضلع بن جانے کے بعد اس میں شامل ہو گئی ۔ حافظ آباد کے انگریزی عملداری میں شامل ہونے کے 1856ء کے پہلے بندوبست سے تیسرے بندوبست ( 1892ء) تک مسٹر اڈوائر مہتمم بندوبست اور بعد میں ڈپٹی کمشنر گوجرانوالہ بھی رہے ۔ وہ ایک ان تھک اور بہت فرض شناس آفیسر تھے ۔ چھتیس سال کے عرصہ میں قریب چھیاسی انگریز افسران ضلع گوجرانوالہ کے ڈپٹی کمشنر رہے ۔ ابتدا میں تو انگریز فوجی افسران ہی ڈپٹی کمشنر کے فرائض انجام دیتے رہے ۔ بعض ڈپٹی کمشنر تو صرف دو یا تین ماہ کے لئے آتے تھے اور پھر ان کی جگہ پر نئے آ جاتے تھے ۔ حافظ آباد کی تاریخ میں دو ڈپٹی کمشنر صاحب بہت مقبول ہوئے تھے ۔ ایک مسٹر اے برانڈ رتھ اور دوسرے مسٹر جے- بی کارڈی مسٹر برانڈ رتھ کے نام پر انیگلو برانڈ رتھ ورنیکلر اسکول کھولا گیا تھا اور مسٹر جے بی کارڈی نے حافظ آباد کے تحصیلدار منشی گوری شنکر صاحب کی درخواست پر حافظ آباد کے مشہور گوردوارہ صاحب چھٹی پادشاہی کے ساتھ ملحقہ تاریخی تالاب کو جو اس وقت تک اربابوں یا پٹھانوں والا چھپڑ کہلاتا تھا پختہ اور جدید طریقہ سے بنوایا تھا جو حافظ آباد کے عوام الناس کے لئے تھا

عزیز علی شیخ

Site Admin

MBBS MD

Share This :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Need Help?