Soda Water Factories & Paan Shops

حافظ آباد کی تاریخ کے گمشدہ اوراق
( سوڈا واٹر فیکٹریاں اور پان سگریٹ شاپ ) حافظ آباد میں سب سے پہلے بابو رام سہاے کپور نے 1901ء میں سوڈا واٹر فیکٹری لگائی تھی ۔ ان دنوں حافظ آباد میں سوڈا لیمونیڈ پینے کا کوئی رواج نہ تھا صرف کبھی ڈاکٹر صاحبان کی ہدایت پر مریضوں کو سوڈا واٹر یا لیمونیڈ دیا جاتا تھا ۔ مگر پھر ایک وقت ایسا بھی آیا کہ سوڈا واٹر پینے کا عام رواج ہوگیا ۔ کچھ عرصہ بعد ان کی دوکان شہر کے مشرقی دروازہ کے پاس آگئی تھی۔ جب شہر کی آبادی بڑھ گئی تو شہر میں مزید کئی سوڈا فیکٹریاں کھل گئیں ۔ جن میں بہت اعلیٰ درجہ کا سوڈا واٹر ،لیمونیڈ اور دودھ سوڈا ملتا تھا خاص طور پر پیٹ درد کے مریضوں کے لئے اعلیٰ درجے کی جنجر بوتل تجویز کی جاتی تھی ۔ جس کے پینے سے مریض کی پیٹ درد فوری دور ہو جاتی تھی ۔ میں اس وقت کی چند سوڈا واٹر فیکٹریوں کے نام لکھ رہا ہوں ۔(1) کپور سوڈا واٹر فیکٹری ، مالکان سردار گوربخش سنگھ ، رائے ایشر داس کپور تھے (2) چوہدری سوڈا واٹر فیکٹری ، مالک چوہدری نارائن داس کپور اینڈ سنز تھے گوجرانوالہ روڈ بالمقابل تھانہ (3) جگن سوڈا واٹر فیکٹری ، مالک جگن ناتھ (4) بھاٹیہ سوڈا واٹر فیکٹری ، مالک شری دیس راج بھاٹیہ ( 5) خالصہ سوڈا واٹر فیکٹری ، مالک سردار گیان سنگھ نامدھاری ( 6) پرکاش سوڈا واٹر فیکٹری ، مالک اوم پرکاش ملہوترہ (7) مسلم سوڈا واٹر فیکٹری ، مالک میراں بخش اللہ بخش بھلر ان کے علاوہ تقسیم کے فوری بعد شیخ چراغ دین لاکھڑا کی ونیکی روڈ پر اور محمد رمضان غلام حسین کی شرقی دروازہ کے باہر اور میر محمد حسین کاشمیری اور کدو پہلوان کی تھانہ کے سامنے گوجرانوالہ روڈ پر سوڈا واٹر کی فیکٹریاں تھیں ۔ حافظ آباد میں تقسیم تک پان اور سگریٹ کی دو دوکانیں بہت مشہور تھیں ۔ (1) مین بازار میں نزد واپڈا شکایت دفتر بابا لاہور یہ پانوالہ کی مشہور دوکان تھی (2) تھانہ کے سامنے باؤ بہاری لال کی پان سگریٹ کی دوکان تھی ۔ تقسیم سے کچھ عرصہ قبل یہ دوکان میر محمد حسین کاشمیری نے لے لی تھی ۔ اور تقسیم سے قبل اور بعد تک اس دوکان پر گاہکوں کا ہجوم رہتا تھا اور اس دوکان پر سگریٹ سلگانے کے لئے ایک پٹ سن کا بنا فیتہ مسلسل سلگتا رہتا تھا ۔ تقسیم کے بعد میر محمد حسین کاشمیری صاحب نے یہاں پر سوڈا واٹر فیکٹری بھی لگا لی تھی ۔ کبھی اس دوکان پر بہت رونق ہوتی تھی ۔ گرمیوں کی شام یہاں دوکان کے باہر تازہ پانی کا ترکاو کیا ہوتا تھا اور پانی کے ترکاو کے بعد مٹی کی سوندھی خوشبو محسوس ہوتی تھی ۔ دوکان کے ساتھ باہر کی جانب اینٹوں کا ایک پختہ چبوترہ بنا ہؤا تھا اور اس پر میر محمد حسین کاشمیری صاحب بیٹھے ہوتے تھے ۔ اور ان کے سامنے تازہ پانی کے دو گھڑے پڑے ہوتے تھے ۔اور ان پر روزانہ کے حساب سے موتیا پھولوں کے ہار پڑے ہوتے تھے اور ان موتیا کے پھولوں کی خوشبو پانی کے چھڑکاؤ کے بعد مٹی کی خوشبو سے مل کر ایک عجیب قسم کی خوشبو بن جاتی تھی دوکان کے ساتھ ہی لکڑی کے دو بڑے بنچ پڑے ہوتے تھے جن پر شام کی آمد کے ساتھ ہی بیٹھنے والوں کی آمد شروع ہو جاتی تھی۔ مجھے یاد ہے کہ جب میری عمر پانچ سال کے لگ بھگ تھی تو میرے ابا جان اکثر اوقات شام کو مجھے اپنے ساتھ ادھر لے آتے تھے ۔ اور میں اپنے اباجان کے دوستوں کی آنکھوں کا تارا ہوتا تھا ۔ اور میں رات گئے دیر تک تایا جان میر محمد حسین کاشمیری کی گود میں بیٹھا رہتا تھا ۔ اس وقت یہ دوکان حافظ آباد کی سیاسی سرگرمیوں کا مرکز تھی ۔ ڈنڈی پٹی بھی تایا جان میر محمد حسین کاشمیری بہت قائم تھے ۔ پوری کشمیری برادری کے وہ بڑوں میں شمار ہوتے تھے ۔ اور اس وقت حافظ آباد میں کشمیری برادری کا بہت رعب اور دبدبہ تھا اور لڑائی بڑائی میں یہ لوگ آگے ہوتے تھے۔ اور پھاٹک سے اس پار ان کی بہت چلتی تھی ۔ اور چونکہ تھانہ ان کے پاس ہی تھا ۔ اس لئے تھانہ میں بھی ان کی بہت چلتی تھی ۔ اس دوکان پر روزانہ کے حساب سے بیٹھنے والوں میں تایا جان محمد طفیل بٹ، تایا جان محمد اقبال رندھاوا ، چاچا نزیر بٹ، چاچا محمد حسین ، شیخ ظہور حسین ( والد محترم) اسلم کشمیری ، محمد صادق ، مرزا عبدالرشید ٹھیکیدار ، چاچا بوٹا زرگر ، میاں نواب دین انصاری ، محمود بھٹی، چاچا عبدالحق منیاری والے ، حکیم ہدایت اللہ ، حسین پہلوان کشمیری ، نوری پہلوان، محمد بشیر سمرالوی، ماسٹر محمد رمضان زاہد، شیخ امان اللہ چئیر مین صاحب ، سعید اختر بھٹی ،سلیم شاہد بلا اور حاجی محمد یونس ملتانی وغیرہ تھے یاد رہے یہ لوگ ہی تقسیم کے بعد نمایاں تھے نوجوانوں میں راشد امین حجازی اور محمد صدیق بھٹی بھی ہوتے تھے۔ اور حافظ آباد کے اس وقت کے غنڈہ عناصر محمد پانوالہ کا نام سن کر ہی خوف کا شکار ہو جاتے تھے ۔

عزیز علی شیخ

Site Admin

MBBS MD

Share This :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Need Help?