Hafizabad By Business

حافظ آباد کی تاریخ کے گمشدہ اوراق

تقسیم تک حافظ آباد کاروباری لحاظ سے بہت مستحکم تھا اور اس کی دونوں دانہ منڈیاں ہر وقت مال سے بھری ہوتی تھیں ۔ خاص کر چاول کی فصل میں پورے ہندوستان میں حافظ آباد ممتاز پوزیشن رکھتا تھا ۔ اور اس وقت تک سالانہ دو کروڑ کی اجناس حافظ آباد سے دساور جاتی تھیں ۔ اور حافظ آباد میں بے شمار چاول کے چھوٹے بڑے کارخانے تھے ۔اور اس کے علاوہ بھی کاٹن تیل ماچس بٹن پنسل صابن وغیرہ بنانے کی فیکٹریاں اور فلور ملز تھیں ۔ hafizabad old businessحافظ آباد میں تیس کے عشرے میں گوجرانوالہ کاٹن جننگ اینڈ رائس ملز کے نام سے ایک بہت بڑا کارخانہ قائم ہوا تھا ۔ یہ کارخانہ ریلوے روڈ پر موجودہ مال گودام کے بلمقابل تھا ۔ اور منڈی غربی کے جانب شمال تھا ۔ اور منڈی اور کارخانہ کے درمیان مال کی نقل و حرکت کے لئے عقب ریلوے روڈ گڈوں کے لئے ایک راستہ بنا ہوا تھا ۔ اور اس کا صدر دروازہ سابقہ مرزا خلیل جرال صاحب کے کارخانہ ( سابقہ مالک ڈاکٹر منوہر لال) کے ساتھ والی گلی کے آخر میں تھا ۔ یہ کارخانہ گوجرانوالہ کے لالہ کرم نارائن سوئیں ، لالہ آتما رام اور لالہ برکت رام کے مشترکہ سرمایہ سے قائم ہوا تھا ۔ اس وقت اس کارخانہ پر ایک لاکھ روپیہ سے زیادہ لاگت آئی تھی ۔ جو اس وقت بہت بڑی رقم تھی ۔ اس کارخانہ میں تقریباً چالیس روئ کی مشینیں ، دس چاول نکالنے والی مشینیں ، اور کئی تیل نکالنے والی مشینیں اور آٹا پیسنے والی چکیاں تھیں ۔ یہ کارخانہ بہت بڑا اور وسیع اراضی پر پھیلا ہوا تھا ۔ اسی ہزار روپیہ سے زیادہ کا سرمایہ مشینری کی خریداری اور عمارت پر لگ چکا تھا ۔ اور پھر مال خریدنے کے لئے بھی سرمایہ درکار تھا ۔ چنانچہ یہ کارخانہ کچھ عرصہ ہی چلا ۔ کارخانہ کی شراکت میں لالہ کرم نارائن کا سرمایہ جو کہ قریب پچاس ہزار روپیہ تھا سب سے زیادہ تھا لالہ برکت رام کا دس ہزار اور لالہ آتما رام کا بیس ہزار روپیہ تھا ۔ لالہ کرم نارائن اور لالہ آتما رام نے اپنا سرمایہ نکال لیا اور کارخانہ لالہ برکت رام کی تحویل میں آ گیا اور انہی کے نام پر مشہور ہو گیا ۔ لالہ برکت رام پڑھے لکھے نہ تھے صرف مہاجنی لنڈے جانتے تھے مگر کاروباری طور بڑی سوجھ بوجھ کے مالک تھے ۔ مگر اب ان کے پاس اتنا بڑا کارخانہ چلانے کے لئے ذاتی سرمایہ نہیں تھا ۔ انہوں نے سرمایہ کے حصول کے لئے بہت کوشش کی اور پھر ان کا کسی طرح سے لالہ ہر کشن لال گابا بیرسٹر صاحب جو کہ اس وقت پنجاب میں تجارت کے بے تاج بادشاہ کہلاتے تھے کے ساتھ رابطہ ہو گیا ۔ لالہ برکت رام نے ان کو خط لکھا کہ میں آپ سے ملنا چاہتا ہوں ۔ لالہ ہر کشن نے ان کو جواب دیا کہ وہ جب چاہیں مجھے ملنے کے لئے لاہور آ سکتے ہیں مگر میری مشورہ فیس ساٹھ روپے ایک گھنٹے کی ہے ۔ اور اگر تو میری فیس ادا کر سکتے ہیں تو تشریف لے آئیں ۔ لالہ برکت رام گو پڑھے لکھے نہ تھے مگر قدرتی ذہانت رکھتے تھے اور وہ ہمیشہ بات کو سوچ سمجھ کر اپنا فیصلہ کرتے تھے ۔ وہ لاہور لالہ ہرکشن لال کے دفتر چلے گئے اور انہوں نے جاتے ہیں اپنی جیب سے ساٹھ روپے نکال کر ان کی میز پر رکھ دئیے ، اور گھڑی بھی سامنے رکھ دی ۔ اور لالہ ہر کشن سے کہا کہ جناب آپ کی فیس حاضر ہے ۔ اور یہ ایک گھنٹے کی فیس ہے مگر میں چالیس منٹ میں آپ کو اپنی داستان سناؤں گا اور باقی بیس منٹ آپ کے جواب کے لئے ہیں ۔ چنانچہ انہوں نے اپنے مقررہ وقت میں بیرسٹر صاحب کو اپنی پوری کہانی سنا دی ۔لالہ ہر کشن بیرسٹر صاحب ان کی باتوں اور کاروباری سوچ سے بہت متاثر ہوئے ۔ اور کہنے لگے کہ وہ پیپلز بینک حافظ آباد کو لکھ رہے ہیں کہ وہ میری شخصی ضمانت پر ان کو چالیس ہزار روپیہ دے دیں ۔ اور مزید رقم کی بھی ان کو ضرورت ہو تو ان کی درخواست پر خصوصی غور کیا جائے ۔ چنانچہ وہ لاہور سے سرخرو واپس آئے اور اپنا کارخانہ چالو کیا ۔ اس کارخانہ میں بیسیوں کے حساب سے ورکرز کام کرتے تھے ۔ خاص کر موجودہ بجلی محلہ کے لوگ ادھر زیادہ تھے ۔ لالہ برکت رام کا سرمایہ حافظ آباد اور حافظ آباد کے باہر تک پھیلا ہوا تھا ۔ اور ان کا کارخانہ اور کاروبار خوب چل نکلا تھا ۔ اس دوران میں لالہ برکت رام نے چنوں کا ایک بہت بڑا سودا کوٹ کپورا ضلع امرتسر کی طرف کیا ۔مگر ان کی بدقسمتی کہ ان دنوں چنوں کا ریٹ بالکل زمین پر آ گیا اور لالہ برکت رام نے ایک بہت بڑی رقم چنوں کی خریداری پر لگائ ہوئی تھی۔کو کمر توڑ خسارہ ہوا اور پھر اس بھاری خسارے کی وجہ سے اپنے پاؤں پر نہ کھڑے ہو سکے اور ان کا دیوالیہ نکل گیا ۔ وہ سال حافظ آباد کی دونوں منڈیوں کےلئے برا ثابت ہوا تھا کیونکہ حافظ آباد کے آڑھتیاں منڈی بہت بڑے خسارے سے دو چار ہوئے تھے ۔ یہ کارخانہ پھر بند ہو گیا اور لالہ برکت رام اپنے خاندان کے ساتھ حافظ آباد چھوڑ کر فیروز پور چلے گئے ۔ انہوں نے اس بڑے خسارے کے صدمہ کو اپنے دل پر لے لیا تھا ۔ اور وہ جلد ہی اس دنیا سے رخصت ہو گئے ۔ یہ کارخانہ پیپلز بینک کے پاس تھا ۔ پھر یہ کارخانہ عام نیلامی میں ساون اینڈ کمپنی سیالکوٹ نے خرید لیا ۔ کمپنی نے یہ کارخانہ سینتالیس ہزار روپیہ میں خرید کیا تھا ۔ تین چار سال اس کمپنی نے کارخانہ چلایا ۔ مگر ایک تو حافظ آباد کے رہنے والے نہیں تھے اور نہ ہی ان کو اس علاقے یا شہر سے کوئی دلچسپی تھی ۔ اس لئے انہوں نے کچھ عرصہ ہی میں اس کارخانہ کی بھاری بھرکم مشینری فروخت کر دی ۔ اور زمین کے پلاٹ بنا کر فروخت
کر دئیے ۔ اور اس طرح سیالکوٹ کی ساون مل اینڈ کمپنی نے بہت سرمایہ کمایا تھا ۔ جو کہ

سوا لاکھ روپیہ کے لگ بھگ تھا

عزیز علی شیخ

Site Admin

MBBS MD

Share This :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Need Help?