تقسیم کے بعد کا حافظ آباد اور حافظ آباد کے تعلیمی ادارے میں اس سے پہلے تقسیم تک کے حافظ آباد کے متعلق تفصیل سے لکھ چکا ہوں ۔ 1947ء سے 1970ء تک کا حافظ آباد ایک خاموش اور پرانے ماحول سے جڑا ہوا شہر تھا ۔ پرانی عمارتیں اور پرانے لوگ ابھی باقی تھے اور گزرے وقتوں کے اچھے طور طریقے بھی باقی تھے ۔ لوگ ایک دوسرے کی غمی خوشی میں شریک ہوتے تھے ۔ باہم احترام تھا ۔ شرم و حیا باقی تھی ۔ زندگی میں آتی تیزی نہ تھی ۔ بڑے بوڑھوں کا احترام باقی تھااور ان کی باتیں بڑی خندہ پیشانی سے سنی جاتی تھیں ۔ متوسط طبقے کے لوگ بھی اپنی زندگی پر سکون اور وقار سے گزارتے تھے ۔ بڑے بڑے محل نما مکانات کا تصور ہی نہ تھا ۔ بڑے سے بڑے امیر خاندان بھی چھوٹی چھوٹی گلیوں میں رہتے تھے ۔ اور اس وقت حافظ آباد کے باسیوں کا مزاج اور طرز معاشرت دیہات میں بسنے والے لوگوں جیسا ہی تھا ۔ 1947ء کی تقسیم تک کے حافظ آباد میں تعلیمی لحاظ سے کافی بہتری آ چکی تھی ۔ گو تعلیمی ترقی میں ہندو اور سکھ آگے تھے مگر مسلمان طلباء اور طالبات کی تعداد بھی بڑھ رہی تھی ۔ تقسیم کے بعد حافظ آباد میں مسلم ہائی اسکول کے نام سے ایک نئے تعلیمی ادارے کا اجراء ہوا ۔ وہ اسکول دیوان ہری کشن کپور کی ملکیت وسیع وعریض عمارت واقع محلہ ببن بخآری میں ہے ۔ 1946ء میں تقسیم سے قبل ہی حافظ آباد میں بچیوں کی تعلیم کے لئے پہلا ہائی اسکول قائم ہوا تھا جس کا تقسیم تک نام ہر کور گرلز ہائی اسکول تھا اور اب اسے گورنمنٹ گرلز ہائی اسکول کہا اور لکھا جاتا ہے۔ سابقہ بوائز آریہ ہائی اسکول جو کہ تقسیم تک ہندو برادری کے پاس تھا اور اس وقت اس تعلیمی ادارے کا شمار ضلع گوجرانولہ کے بہترین ہائی اسکولز میں ہوتا تھا ۔ اور اس وقت اس کی جدید سائنسی لیبارٹری اور لائبریری علاقے میں مشہور تھی اور ضلع گوجرانولہ بلکہ ضلع گوجرانولہ کے باہر کے طلباء بھی اس تعلیمی ادارے میں پڑھنا اعزاز سمجھتے تھے اور اس اسکول کا بورڈنگ ہاؤس بڑا وسیع تھا ۔ قیام پاکستان کے
بعد یہ اسکول ایم بی ہائی اسکول نمبر 2 کہلانے لگا۔ اور موجودہ وقت میں اس سابقہ آریہ ہائی اسکول کی عمارت میں بچیوں کا ڈبل سکشن ہائی اسکول ہے ۔ اور ایم بی ہائی اسکول نمبر 2 جو اب گورنمنٹ بوائز ہائی اسکول نمبر 2 کہلاتا ہے پارک روڈ نزد حافظ آباد اسٹڈیم پر واقع ہے ۔ 1964ء میں حافظ آباد میں میونسپل انٹر میڈیٹ کالج کا اجراء ہوا تھا جو کہ بعد میونسپل ڈگری کالج بنا اور اب پوسٹ گریجویٹ گورنمنٹ کالج کہلاتا ہے ۔ حافظ آباد کا سب سے قدیم ترین تعلیمی ادارہ موجودہ گورنمنٹ ہائی اسکول نمبر 1 ہے ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ اسکول پہلے مکتب مدرسے کی شکل میں تھا پھر انگریز دور حکومت میں یہ ڈسٹرکٹ بورڈ مڈل اسکول تھا پھر یہ اسکول حافظ آباد کی میونسپل کمیٹی کے زیر انتظام تھا اور غالباً بیس کی دہائی کے آخر میں اسے ہائی اسکول کا درجہ حاصل ہوا ۔ پھر یہ میونسپل کمیٹی کے تحت آ گیا ۔ اور اسے عرصہ ایم بی ہائی اسکول نمبر 1 کے نام سے پکارا اور لکھا جاتا تھا ۔ پھر ذوالفقار علی بھٹو کے دور حکومت میں اسے گورنمنٹ ہائی اسکول کے نام سے کہا
اور لکھا جانے لگا۔ راقم کو یہ فخر اور اعزاز حاصل ہے کہ وہ بھی حافظ آباد کے اس قدیم اور اعلیٰ ترین تعلیمی ادارے میں پڑھتا رہا ہے ۔ یہ اسکول ریلوے اسٹیشن حافظ آباد کے قریب واقع ہے ۔ میں67 .1966ء میں اس عظیم درسگاہ کی چھٹی کلاس میں داخل ہوا تھا ۔ اس وقت اس درسگاہ کا تعلیمی ماحول خوب تھا ۔ ہمارے دور میں جناب محمد نذیر فاروقی صاحب اس عظیم اور تاریخی درسگاہ کے ہیڈ ماسٹر تھے ۔ وہ بہت شفیق ، حلیم، مدبر اعلیٰ تعلیم یافتہ اور بارعب شخصیت تھے ۔ ان کی یادداشت غضب کی تھی ۔ قیام پاکستان کے کچھ عرصے بعد ہی وہ اس درسگاہ میں آ گئے تھے ۔ قیام پاکستان سے قبل ہی آریہ ہائی اسکول اور ہائی اسکول نمبر 1 کا تعلیم اور کھیل کے میدان میں آپس میں مقابلہ چلتا رہتا تھا ۔ قیام پاکستان کے بعد۔ ایم بی ہائی اسکول نمبر 2 کی’ ہاکی ٹیم نمر 1 کی فٹ بال اور مسلم ہائی اسکول کی کبڈی کی ٹیمیں بہت مشہور تھیں۔ مجھے یاد ہے کہ جب ہم گھر سے اسکول کو جانے کے لئے تیار ہو رہے ہوتے تھے تو اسکول میں بجنے والا پہلا ٹل ( اسے ٹلی بھی کہتے تھے) بج جاتا تھا ۔ اور دوسرے ٹل بجنے تک ہم کو لازمی اسکول پہنچ جانا ہوتا تھا ۔
مجھے یاد ہے کہ اس وقت ایم بی ہائی اسکول نمبر 1 اور 2 دونوں ہمارے گھر سے کافی فاصلے پر تھے ۔ مگر دونوں اسکولوں کے ٹل اپنی واضح فرق والی آوازوں کے ساتھ ہمیں صاف سنائی دیتے ۔ جب بھی کبھی اسکول میں تاخیر سے جاتے تو کوئی نہ کوئی استاد گرامی جو اسکول کے صدر دروازے کے پاس مولا بخش اپنے ہاتھ میں پکڑے کھڑے ہوتے اور پھر ہم لوگ ہوتے اور ان کا مولا بخش جو ہمارے ہاتھوں پر برستا تھا اور ہم لوگ ہائے امی ہائے ابا جی کہہ کر ہاتھ آگے کرتے جاتے( ماسٹر فرید بھٹی صاحب تاخیر سے آنے والوں پر مولا بخش چلانے کے ماہر تھے) اور وہاں سے فارغ ہو کر اپنی اپنی کلاس کا رخ کرتے جاتے ۔ ہیڈ ماسٹر جناب محمد نذیر فاروقی صاحب اعلیٰ درجہ کے منتظم بھی تھے اور ان کی قیادت میں اس تعلیمی ادارے نے دن دگنی اور رات چگنی ترقی کی ۔اور پھر ایک ایسا وقت آیا کہ پورے ضلع گوجرانوالہ میں ایم بی ہائی اسکول نمبر 1 کا طوطی بولنے لگا ۔کھیل کے میدان میں بھی ایم بی ہائی اسکول نمبر 1 کافی نمایاں تھا اور اس کی فٹ بال ٹیم ضلع گوجرانوالہ میں نمایاں مقام رکھتی تھی راقم بھی کبھی اسکول ہذا کی فٹ بال ٹیم کا کھلاڑی تھا ۔ جناب محمد نذیر فاروقی صاحب ہر روز کی تعلیمی سرگرمی کا آغاز اپنی تقریر سے کرتے تھے ۔ سب سے پہلے اسمبلی میں تلاوت قرآن پاک اور پھر نعت شریف ہوتی تھی ۔
پھر جناب فاروقی صاحب اپنی تقریر کرتے تھے اور ہر روز ان کی تقریر ایک نئے موضوع پر ہوتی تھی ۔ اور ان کی تقریر ایک اس شخص کی ہوتی تھی جو اپنے طالب علموں کو اپنے وطن سے محبت حسن اخلاق ایک دوسرے سے اچھا برتاؤ اور تعلیم کے فوائد کے متعلق درس دیتا تھا ۔ اس وقت اسکول کے تمام معزز اساتذہ کرام بھی ان کے بولے جانے والے الفاظ بڑے دھیان سے سن رہے ہوتے تھے ۔ اس وقت ہمارے اساتذہ کرام ہمارے آئیڈیل ہوتے تھے ۔ اور ہم ان کو مافوق الفطرت ہستیاں تصور کرتے تھے ۔ کبھی ہم کسی سڑک یا راستہ پر اپنے استاد محترم کو دیکھ لیتے تھے تو ہماری کوشش ہوتی تھی کہ ان کی ہم پر نظر نہ پڑے ۔ ہائے کیا زمانہ تھا ۔ کیا دور تھا ۔ کیا اساتذہ کرام کا ڈر اور ان کا احترام تھا ۔ ہمارے اس وقت کے اساتذہ کرام میں ہیڈ ماسٹر جناب محمد نذیر فاروقی صاحب ، ماسٹر محمد عبد صاحب ، جناب حافظ لئیق اکبر صاحب ، جناب قاری غلام رسول صاحب ، ماسٹر محمد ابراہیم صاحب ۔ محمد سلیم پی ٹی صاحب ، ایس ایم شفیق صاحب ، شمشیر علی صاحب ڈراینگ ماسٹر ، جناب ظہور احمد بھٹی صاحب ، شیخ محمد منشاء صاحب ، ماسٹر خلیل اللہ صاحب ، ماسٹر عاشق علی صاحب ، ماسٹر محمد حنیف صاحب ، ماسٹر محمد عظیم صاحب ، جناب ماسٹر محمد نزر بھون صاحب ، ماسٹر دین محمد صاحب ، ماسٹر محمد سلیمان ہاشمی صاحب ، مولوی ظہور احمد صاحب ، مولوی محمد شریف صاحب ، قاضی محمد الطاف صاحب ، ماسٹر غلام حسین صاحب ، ماسٹر غلام فرید بھٹی صاحب ، ماسٹر محمد اسلم فاروقی صاحب ، اور ماسٹر حسن صاحب نعمت اللہ صاحب لائیبریر ین ودیگران شامل تھے ۔ تمام اساتذہ کرام اپنے طلباء کو اپنی سگی اولاد سے بھی بڑھ کر پیار دیتے تھے اور طلباء کے آپس کے معاملات سے بھی باخبر رہتے تھے ۔ پڑھائی میں آپس میں مقابلہ کا بہت رحجان ہوتا تھا ۔ پڑھاکو طالب علموں کی شان ہی الگ ہوتی تھی ۔ اس وقت کتاب پڑھنا اور کتاب سے محبت اعزاز سمجھا جاتا تھا ۔ مجھے یاد پڑتا ہے کہ اس وقت اسکول میں داخل ہوتے ہوئے ایک بڑا بورڈ نمایاں نظر آتا تھا اور اس پر لکھی ہوئی تحریر ہر ایک پڑھنے والے کو اپنی طرف متوجہ کر لیتی تھی ۔ باادب بانصیب ، بے ادب بے نصیب ۔ یہ تحریر تھی ۔ کمرشل ازم کا ابھی اتنا دور نہیں تھا ۔ معزز اساتذہ کرام اپنے طلباء کو خلوص نیت اور دل و جان سے پڑھاتے اور اتنی محنت کرواتے تھے کہ ان کو ٹیوشن کی ضرورت ہی نہیں پڑتی تھی ۔ کیا ماحول تھا ۔ کیا وقت تھا ۔ کیا شاندار اساتذہ کرام تھے ۔ اب تو وہ سب کچھ ایک خواب میں بدل چکا ہے ۔ 1964ء میں حافظ آباد میں میونسپل کمیٹی کے تحت علی پور روڈ نزد سول ہسپتال میونسپل انٹر میڈیٹ کالج کا قیام عمل میں آیا تھا ۔ اس کالج کا قیام اہلیان حافظ آباد کے لئے بہت بڑی نعمت تھا ۔ کیونکہ یہاں کے طلباء کو میٹرک کے بعد مزید تعلیم حاصل کرنے کے لئے لاہور یا گوجرانوالہ جانا پڑتا تھا ۔ 1964ء میں اسمعیلی فرقہ کے امام ہز ہائی نیس جناب پرنس کریم آغا خان حافظ آباد تشریف لائے تھے اور اس وقت انہوں نے پچاس ہزار روپے کی خطیر رقم کالج ہذا کو بطور عطیہ دی۔ یاد رہے یہ اس وقت ایک بھاری رقم تھی ۔ یہ ان کی حافظ آباد میں تعلیمی سرگرمیوں سے متعلق محبت کا اظہار تھا ۔ پہلے یہ کالج موجودہ گورنمنٹ گرلز کالج والی عمارت میں تھا اور 1973ء میں یہ موجودہ مقام والی عمارت واقع مدہریانوالہ روڈ پر شفٹ ہو گیا تھا ۔ یاد رہے علی پور روڈ پر موجود گرلز کالج کی جگہ پر کبھی ایم بی ہائی اسکول نمبر 2 کا بورڈنگ ہاؤس ہوتا تھا ۔ جب مدہریانوالہ روڈ پر واقع تعمیر کردہ نئی عمارت میں کالج کی تعلیمی سرگرمیوں کا آغاز ہوا تھا تو اس وقت ذوالفقار علی بھٹو پاکستان کے وزیراعظم تھے ۔ اس وقت کے حافظ آباد کے پاکستان پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والے ایم پی اے جناب سید فدا حسین شاہ شیرازی ایڈووکیٹ نے اس کالج کی عمارت کا افتتاح کیا تھا ۔ 1967ء میں انٹر کالج کو ڈگری کالج کا درجہ ملا تھا ۔ اس کالج کے پہلے پرنسپل جناب سکواڈرن لیڈر (ریٹائر) اے کے ہاشمی تھے ۔اس گورنمنٹ کالج سے خطہ حافظ آباد کے ہزاروں طلباء نے فیض علم حاصل کیا ہے ۔ کسی وقت اس کالج کا ماحول اپنی تعلیمی اور ادبی سرگرمیوں کی بناء پر بڑا نمایاں تھا ۔ انڑ کالجز تقریروں کے مقابلے اور شعر و شاعری کی محفلیں یہاں عام ہوتی تھیں ۔ اور یہ کالج سپورٹس میں بھی نمایاں تھا ۔ 6 .2005 کو اس وقت کے ایم پی اے ڈاکٹر مظفر علی شیخ صاحب کی خصوصی کاوش سے کالج ہذا میں ماسٹر کلاسز کی منظور ی ہوئی تھی ۔ حافظ آباد میں ایک گورنمنٹ گرلز ڈگری کالج علی پور روڈ پر واقع ہے اور علاقے کی بچیوں کو تعلیمی سہولیات فراہم کر رہا ہے ۔ حافظ آباد میں تقسیم سے قبل کے کئی پرائمری اسکول موجود ہیں ۔اور قدیم وقتوں سے حافظ آباد میں ایک ڈسٹرکٹ بورڈ گرلز پرائمری اسکول تھا ۔ جو 1930 ء میں حافظ آباد میں میونسپل کمیٹی کے قیام کے بعد اس کے تحت آ گیا تھا ۔ ایک پرائمری گرلز اسکول گڑھی اعوان میں بھی تھا ۔
عزیز علی شیخ
MASHALLAH BEAUTY FULL
KEEP IT UP
VERY GOOD INFORMATION