Chowk Farooq-E-Azam

چوک فاروق اعظم حافظ آباد سے جڑی کچھ یادیں کچھ باتیں میں نے ابھی کچھ دیر پہلے ہی اپنے اس چوک کے متعلق ایک مختصر پیرائے میں جس میں ابھی حال میں اس فانی دنیا سے کوچ کرنے والے افراد کا ذکر کیا تھا تو محترم بلال خان صاحب جو کہ میرے بھتیجے بھی ہیں کیونکہ ان کے والد محترم مرحوم عبدالغفور خان صاحب میرے بہت پیارے اور قریبی دوست تھے کا استدلال تھا کہ میں چوک فاروق اعظم کے متعلق تفصیلی مضمون لکھوں تو میں اب ان کی خواہش کے احترام میں دوبارہ لکھ رہا ہوں قیام پاکستان سے قبل ہی یہ چوک اور اس کے گردونواح کاchowk farooq azam علاقہ حافظ آباد میں نمایاں تھا حافظ آباد کی پہلی دانہ منڈی اس چوک میں تھی موجودہ آرائیاں والی گلی موجودہ وقت میں بازار حافظ آباد کی گزری تاریخ کا اہم جز ہے اس طرف کبھی حافظ آباد کا شمالی دروازہ ہوتا تھا اور شمال کی جانب رسول نگر کی طرف سے آتے ہوئے سکھوں کے چھٹے گرو صاحب ہر گو بند جی سرکار موجودہ فاروق اعظم روڈ جس کو کبھی رام بھون روڈ کہا جاتا تھا سے اس چوک میں آے اور پھر یہاں سے آرائیاں والے بازار کے راستے سے موجودہ گوردوارہ صاحب چھٹی پادشاہی تک تشریف لے گئے تھے اور وہاں انہوں نے اپنے ایک چیلے کے گھر قیام کیا تھا اور پھر جہاں ان کے چیلے کا گھر تھا گرو صاحب کے یہاں سے جانے کے بعد ان کی یاد میں گوردوارہ صاحب بنا دیا گیا تھا یہ جہانگیر بادشاہ کے دور کی بات ہے 1947 ء کی تقسیم تک اس چوک اور گردونواح کا ممتاز خاندان دیوان چوپڑہ خاندان تھا جس میں دیوان مولراج چوپڑہ دیوان ہنس راج دیوان امر ناتھ بیرسٹر بلاقی رام روپ چند اور وید پنڈت بھیم سین جن کا دواخانہ اور رہائش گاہ چوک ہی میں آرائیاں والا بازار میں داخل ہوتے ہی دائیں جانب تھی موجودہ مسجد قدس والی جگہ پر مندر تھا جو دیوان مولراج چوپڑہ نے بنوایا تھا اور انہی کے نام سے منسوب تھا وغیرہ شامل تھے موجودہ وقت میں جہاں اس وقت پرائمری اسکول برانچ نبمر چھ ہے تقسیم تک وہاں آریہ سماجیوں کا مندر تھا اور ڈاکٹر مظفر علی شیخ صاحب کے کلینک والی جگہ پر دیوان ہنس راج کا دیوان خانہ تھا تقسیم کے بعد اس چوک اور گردونواح کی ممتاز شخصیات میں ڈاکٹر محمد شفیع رندھاوا محمد اقبال رندھاوا سید کامریڈ اقبال حسین غزنوی پہلوان فیروز اور برادران نجریا خاندان مولانا عبد الستار انصاری اسکواڈرن لیڈر محمد اکرم رندھاوا محمد نزیر بٹ شیخ عبد الجبار رانا عبد الروف خان ٹھیکیدار ماما اشفاق بھولا بٹ خالد نزیر بٹ رانا عبد الحکیم سیٹھ محمد اسماعیل سیٹھ عبد العزیز ٹھیکیدار محمد اکمل رندھاوا ایڈووکیٹ چاچا شہاب دین شابو ڈاکٹر اکبر علی ڈاکٹر طالب حسین حاجی علی نواز محمد سلیمان بابا نتھو بابا چینیا طفیل چینا فاروق پھوکا شیخ صدیق سبزی والا عثمان بٹ پکوڑوں والا انیس بٹ دودھ والا خلیفہ محمد یوسف پینٹر چشتی پینٹر علی محمد بوگرہ سید ولی شاہ گاگو سائیکلوں والا سندھی سائیکلوں والا ملک بشیر حجام مولوی ٹیوب ویل شریف چاے والا محمد سعید پانوالہ حاجی محمد اسحاق رحمانی حیات ٹھیکیدار یوسف شاہ سید اقبال شاہ سید ظل حسنین زیدی سید وکیل اختر زیدی آغا کریم علی حافظ شیخ مبارک سید صمد شاہ عرضی نویس مستری غلام محمد ٹال والا برکت علی انصاری شیخ ظہور حسین حکیم محمد الیاس حکیم ہدایت اللہ ڈاکٹر جعفر علی ایم بی بی ایس منظور احمد رندھاوا محمد اختر رندھاوا محمد اسلم خان شیروانی سیٹھ مند حاجی شیخ عبد الستار سید محمد علی سیاپے شاہ بشیر حسین افسانہ محمد یونس شہزاد ایڈووکیٹ حاجی رئیس احمد انصاری محبوب انصاری عبد الکریم شکوری میاں نواب دین انصاری ڈاکٹر محمد یعقوب ریڈیالوجسٹ پا من سبزی والا محمد اسلم رحمانی چوہدری فاضل کاکے شاہ مراتب علی شاہ سرور انصاری ضمیر خان شیروانی مظہر جاوید خان صفدر رحمانی رانا محمد یونس خان صدیق بٹ غفورا پہلوان محمد حسین حجام عبد المجید ٹھیکیدار انصاری حاجی تاج دین انصاری حاجی لیاقت علی انصاری نائبِ ناظم حاجی سراج دین انصاری حاجی شیخ فقیر اللہ شیخ عبدالغفور شیخ جاوید شام سیٹھ محمد سلیمان پی سی او والا استاد رفیق پھیکی محمد صدیق حلوائی شیخ عبد الرؤف مکہ والے شیخ عبد القدوس چادروں والے بدھو انصاری منیر دین امیر دین انور پروانہ انصاری نعت خواں سید مصدق شاہ سید علی نقی شاہ ابراہیم چاے والا نوے کی دھائی کے شروع میں ڈاکٹر مظفر علی شیخ صاحب نے علی پولی کلینک کے نام سے ادھر اپنا کلینک شروع کیا تھا اور وہ دو مرتبہ حافظ آباد کے ایم پی اے منتخب ہوئے اور یہ اعزاز چوک فاروق اعظم کو ہی حاصل ہے اکبر علی بزمی مرحوم سابق ڈسٹرکٹ نائب ناظم اور یونین کونسل ناظم کا تعلق بھی اسی چوک سے تھا ساٹھ کی دھائی کے شروع میں اسماعیلی برادری جن کو شش امامی بھی کہا جاتا ہے کی عبادت گاہ جس کو جماعت خانے کے نام سے بھی پکارا جاتا ہے اس چوک میں قائم ہوئی تھی جماعت خانہ کی عمارت کے ساتھ ایک عمارت تھی جس کے اوپر دو شیروں کے مجسمے لگے ہوئے تھے اور اس عمارت کو شیروں والی بلڈنگ کہا جاتا تھا یہ بلڈنگ بھی چوپڑہ خاندان کی ملکیت تھی تقسیم کے بعد یہ بلڈنگ عبدا لروف غفاری تولیوں والے کے خاندان جن میں صدیق غفاری عزیز شفیع وغیرہ شامل تھے کو ملی تھی اور اس میں وہ برتنوں کا کاروبار کرتے تھے اور اس بلڈنگ کی بیٹھک میں کپڑوں پر چھپا لگانے کا کام بھی کیا جاتا تھا اور یہ بیٹھک لالاریوں کی دوکان کے نام سے مشہور تھی مشہور مجزوب بزرگ سید نور شاہ بخآری جو کہ سید بابن شاہ بخآری جن کے نام سے محلہ ببن بخآری منسوب ہے کے بھائی تھے وہ بھی چوک فاروق اعظم کے قریب ہی دفن ہیں اس چوک ہی میں فاروق اعظم روڈ پر شمال کی طرف جاتے ہوئے دائیں طرف نجریا انصاری خاندان کی پاور لومز کی فیکٹری تھی اور پھر اس فیکٹری والی جگہ پر 1976 ء کے لگ بھگ ایک ویلڈنگ انسٹی ٹیوٹ بنا تھا جس میں اس وقت باہر کے ممالک روزگار کے سلسلہ میں جانے والوں کو ویلڈنگ کا کام سکھایا جاتا تھا اور اس ادارے کے مالکان میں سید محمود اختر زیدی اور جمیل احمد خان شامل تھے 1964 ء میں مادر ملت محترمہ فاطمہ جناح اور صدر ایوب خان کے الیکشن کے دوران یہ چوک محترمہ فاطمہ جناح کی حمایت میں نعروں سے گونجتا تھا 1970 ء کے عام انتخابات کے وقت اس چوک میں حافظ آباد کے تاریخی جلسے ہوتے تھے

محرم کے ایام اور عید میلادالنبی

چوک فاروق اعظم حافظ آباد کبھی اس چوک کی پہچان سیٹھ محمد سلیمان چاچا عبد المجید ٹھیکیدار محمد اکرم بابی بھولا ( سلیمان کولڈ ڈرنکس کریانے والا) پپو مرغیوں والا حاجی دہی بھلوں والا کالا چاے والا شیخ شاہد تکے کباب والا یونس چیر مرغوں والا وغیرہ ہوتے تھے آج موقع ملا تو پپو مرغیوں والے کے ساتھ ہی منشی صاحب کی کپڑے کی دوکان ہے وہاں جا کر کچھ دیر ان کے پاس بیٹھا اور گزرے ایام کی طرف نگاہ دوڑائی تو چوک آہستہ آہستہ آشنا لوگوں سے ختم ہوتا جارہا ہے کبھی جب مجھے تھوڑی سی فرصت ملتی تھی تو میں پپو مرغیوں والے کے پاس جا کر بیٹھ جاتا تھا اور وہ مجھے اپنے پاس دیکھ کر جلدی سے اپنے گھر سے کرسی لے آتا تھا اور میں وہاں بیٹھ کر اپنے چوک کی رونق دیکھا کرتا تھا اور فاروق اعظم روڈ اور ڈاکخانہ روڈ پر آتی جاتی دنیا میرے سامنے ہوتی تھی اب میں نے پپو کی جگہ کو حسرت بھری نظروں سے دیکھا کیونکہ اس کی مرغیوں والی جگہ پر اب ایک کپڑے والا پھڑی لگا کر بیٹھا ہوا تھا مگر چونکہ یہ دستور قدرت ہے ایسے ہی دنیا کا سلسلہ چلتا تھا چلتا ہے اور چلتا رہے گا افراد آتے ہیں چلے جاتے ہیں بس کچھ یادیں رہ جاتی ہیں اور وہ بھی پھر آہستہ آہستہ وقت کے دھارے کے ساتھ بہہ جاتی ہیں کے دن یہ چوک بہت پر ہجوم رہتا ہے

عزیز علی شیخ

Site Admin

MBBS MD

Share This :

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

Need Help?